مسلم لیگ ق کے راہنما عبدالقدوس بزنجو نے وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ نئے قائد ایوان کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ قائد اعظم کے مشتر کہ اجلاس میں نئے قائد ایوان کے لئے چار نا موں پر غور کیا جا رہا ہے جن میں سابق وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی ، سر دار صالح بھوتانی ، جان محمد جمالی اور میر عبدالقدوس بزنجوکے نا م شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج شام یا کل صبح تک دونوں جماعتوں کے ارکان ان میں سے کسی ایک کے نا م متفق ہو جائیں گے جس کے بعد گورنر کو متفقہ اُمیدوار سے آگاہ کرکے نئی حکومت کی تشکیل کے لئے اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لئے کہا جائے گا۔
قدوس بزنجو نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے حکومت میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اپوزیشن نے حکومت کی حمایت کر نے کا فیصلہ کیا ہے جو خو ش آئند ہے۔
دوسری طرف بلوچستان اسمبلی کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے نئی متوقع صوبائی حکومت کی تشکیل میں تعاون اور وزیراعلیٰ کو اعتماد کو ووٹ دینے اور حکومت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے ۔
صوبا ئی اسمبلی میں حزب کے قائد مو لانا عبد الواسع، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل عوامی نیشنل پارٹی کے زمر ک خان، اور بی این پی عوامی کے احسان شاہ نے بدھ کے روز کو ئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا حزب اختلاف میں شامل چار جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چاروں جماعتوں کے ارکان اسمبلی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دونوں جماعتیں کسی اُمیدوار پر متفق نہیں ہوتیں اور اسمبلی توڑ دی جاتی یا معطل کر کے گورنر راج لگایا جاتا ہے تو حزب اختلاف کے ارکان اس عمل کی حمایت نہیں کریں گے اور آئینی وجمہوری راستہ اختیار کریں گے۔
انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا ءاللہ کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک کا مقصد سینٹ کے انتخابات کو رکوانا تھا اور کہا کہ اس طرح کی افواہوں کا مقصد وزیر اعلیٰ کے خلاف تحر یک عدم کو نا کام بنا نا تھا ۔
حزب اختلاف کے راہنماؤں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحر یک عدم اعتماد جمہوری عمل کا حصہ تھا ۔
تجزیہ نگار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورت حال ایسی بنتی جارہی ہے کہ شاید مسلم لیگ نواز اور قائد اعظم کے ارکان اسمبلی کسی بھی اُمیدوار پر متفق نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے إمكانات بڑھتے جارہے ہیں کہ بلوچستان گورنر محمد خان اچکزئی بالآخر مجبور ہو کر اسمبلی ہی توڑ دیں گے اور نئے انتخابات کر ائے جائیں۔