پاکستان کی صوبہ بلوچستان کی حکومت نے ایک اہم علیحدگی پسند کمانڈر اللہ نذر سمیت کالعدم تنظیموں کے 66 عسکریت پسندوں کے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔
صوبائی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک مراسلے کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے سر کی قیمیت 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔
گزشتہ سال ہی صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ آواران کے علاقے میں ہونے والی ایک جھڑپ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اللہ نذر مارا گیا لیکن اس کے کچھ ماہ بعد ہی بی ایل ایف نے اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ نذر کی ایک وڈیو جاری کی تھی۔
اس کے بعد ایک بار پھر سرفراز بگٹی نے عسکریت پسند کمانڈر کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن تاحال اس پر بی ایل ایف کی طرف سے کوئی ردعمل سامنےنہیں۔
جن دیگر کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں کے سر کی قیمت متعین کی گئی ہے ان میں شیر محمد بگٹی کے سر قیمت پچاس لاکھ، شیر دل بگٹی دس لاکھ، دوست محمد دس لاکھ اور نبی بخش کے سر کی قیمت پانچ لاکھ ہے۔
سرکاری مراسلے کے مطابق ان 66 افراد کے سروں کی قیمتیں پانچ لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک ہیں اور ان کا تعلق پانچ مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے جن میں بی ایل ایف کے علاوہ، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) لشکر بلوچستان اور بلعچستان ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔
ان افراد سے متعلق معلومات، زندہ یا مردہ گرفتاری دینے والے کو یہ انعام دیا جائے گا۔
بلوچستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے شورش پسندی کا شکار رہا ہے جہاں اکثر بلوچ قوم پرست صوبے کے وسائل پر زیادہ اختیار کے لیے اور بعض پاکستان سے علیحدگی کے مطالبات کے ساتھ مسلح کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی صوبائی حکومت نے ایسے بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کی کوششوں کا آغاز کیا تھا جس میں بعد ازاں بیرون ملک مقیم براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات میر سلیمان داؤد سے صوبائی عہدیداروں کی ملاقاتوں کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے اس پر مزید کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
صوبائی حکومت نے ہتھیار پھینک کر ریاست کی عملداری تسلیم کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی اور مراعات کا اعلان بھی کیا جس کے بعد فراری کیمپوں کے سیکڑوں لوگ ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ صوبے کے عوام کو جائز حقوق دینے کے لیے پرعزم ہے لیکن ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی بھی جاری رہے گی۔