بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ وہ اپنے منصب سے الگ ہونے کے بعد بھی صوبے میں امن کی خاطر ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ایک سیاسی معاہدے کے تحت عبدالمالک بلوچ جلد اپنے منصب سے الگ ہو جائیں گے اور مرکز میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سردار ثنا اللہ زہری کو بلوچستان میں وزارت عظمٰی کے منصب کے لیے نامزد بھی کر دیا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان سے کامیاب ہونے والی تین بڑی جماعتوں (مسلم لیگ ن، نشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی) نے مری میں شراکت اقتدار کا ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت پہلے ڈھائی سال کے لیے نیشنل پارٹی کی طرف سے عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔
معاہدے کے تحت پانچ سالہ مدت کے آخری ڈھائی سال یہ منصب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سونپا جانا ہے۔
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں بلوچستان میں قیام امن کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات سب کی خواہش تھی۔
’’صرف میری کوشش نہیں تھی بلکہ وفاقی حکومت کی اور یہاں تک کہ عسکری قوتوں کی، سب کی کوشش تھی کہ بات چیت کی طرف ہم جائیں اور اس میں ہم ایک حد تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب بھی ہوئے اور میں امید رکھتا ہوں کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اس مسئلے کو آگے لے جائیں گی اور جہاں کہیں میری مدد کی ضرورت ہو گی میں اپنا کردار ادا کروں گا جو کردار مجھے دیا گیا۔‘‘
عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا اُن کے حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا۔
’’آج بھی امن و امان (کے مسئلے کا حل اولین مسئلہ) ہے، کل بھی یہ ہوگا۔۔۔‘‘
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ کئی ناراض بلوچ رہنماؤں بشمول براہمداغ بگٹی کی طرف سے بات چیت پر آمادگی ایک خوش آئند امر ہے۔
’’میں اس کو بہت ہی مثبت سمجھتا ہوں، خان آف قلات نے یا نوابزادہ بگٹی نے جو کہا کہ ہم مذاکرات کریں گے یہ بلوچستان کے لیے اور ملک کے لیے بہت ہی خوش آئند ہے۔‘‘
براہمداغ بگٹی، بلوچستان کے بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی 2006ء میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد براہمداغ بگٹی اور بعض دیگر بلوچ رہنماؤں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کارروائیاں شروع کی گئیں تھیں جن میں سرکاری تنصیبات اور صوبے کے غیر بلوچ رہائشیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تاہم حال ہی میں براہمداغ بگٹی کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا تھا لیکن اُن کے بقول بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبد المالک بلوچ اور وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے حال ہی میں جنیوا میں براہمداغ سے ملاقات کی تھی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عبدالمالک بلوچ کی زیر قیادت صوبائی حکومت نے بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے خاطر خواہ اقدام کیے جس کی وجہ سے ماضی کی نسبت اس پسماندہ صوبے میں صورتحال خاصی بہتر ہوئی۔