بلوچستان میں اغوا ء برائے تاوان کے واقعات میں اضافے کے باعث صوبے میں آباد اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان”ایچ آر سی پی“ نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے خدشات کو دور کرکے اُنھیں تحفظ فراہم کرے۔
بدھ کو ایچ آر سی پی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے اقلیتوں کے تحفظات سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کوبھی آگاہ کیا ہے۔ بیان میں اغواء برائے تاوان کے حالیہ واقعات کی بھی تفصیلات درج کی گئی ہیں جن کے مطابق 10جنوری کوہندو برادری سے تعلق رکھنے والے راجیو کمارکوضلع نوشکی اور مہاراج لکھمی گار کوگذشتہ سال کے اواخر میں 21 دسمبر کو قلات سے اغواکیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ لکھمی گار کے اغوا کاروں نے تاوان کی رقم بتائے بغیر اُن کی برادری کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ بازیابی کے لیے رقم اکٹھی کریں۔ جب کہ راجیو کمار کے اغواء کاروں نے تاحال اُن کے خاندان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مغوی افراد کے اہل خانہ ”ذہنی اذیت “کا شکار ہیں اور اغواء کے ان واقعات کے بعد صوبے میں آباد اقلیتی برداریوں سے تعلق رکھنے والے افرادمیں عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی وفاقی وزارت کے علاقائی ڈائریکٹر سعید احمد خان نے کچھ روز قبل انکشاف کیا تھا کہ اغواء برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد لگ بھگ 27 ہندوخاندانوں نے بھارت میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے اپنی درخواستیں اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں جمع کر ا رکھی ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں نے گذشتہ چند سالوں سے سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات کو اہداف بنانے کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں سے آکر یہاں آباد ہونے والے خاندانوں پر جان لیوا حملوں کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے جس کی وجہ سے آباد کار بھی صوبہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اقلیتوں سمیت تمام افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوششیں کی جاری ہیں اور ایک خصوصی فورس بھی تشکیل دی گئی ہے جو تشدد کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورت حال صوبائی اور مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے اور نہ صرف دوردراز علاقوں بلکہ صوبائی دارالحکومت میں بھی تشدد کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ بدھ کوبھی کوئٹہ میں پولیس کی ایک گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی ہو گیا ہے۔