بلوچستان کے ضلع مستونگ میں جمعے کے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 129 ہو گئی ہے اور واقعے کے بعد صوبے بھر میں فضا سوگوار ہے۔
حکام کا کہنا ہے دھماکے کے 120 سے زائد زخمی مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں جن میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کا سلسلہ ہفتے کی صبح سے ہی جاری ہے۔
دھماکہ جمعے کی دوپہر مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی بی 32 سے امیدوار نواب زادہ سراج رئیسانی کی ایک کارنر میٹنگ کے دوران ہوا تھا۔
درینگڑھ کوئٹہ سے ایران کی طرف جاتے ہوئے تقریباً 38 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق خود کش حملہ آور جلسے کے شرکا کے درمیان موجود تھا جس نے خود کو اس وقت دھماکے سے اڑالیا تھا جب نواب زادہ رئیسانی نے کارنر میٹنگ سے خطاب شروع کیا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے جو اس سے قبل بھی بلوچستان میں ہونے والے کئی حملوں اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔
مستونگ حملے پر صوبائی حکومت کی طرف سے دو روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد گورنر اور وزیراعلیٰ ہاﺅسز، صوبائی اسمبلی اور سیکرٹریٹ کی عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔
واقعے کے بیشتر زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا جو اب بھی شہر کے مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
واقعے پر کوئٹہ کی فضا سوگوار ہے اور بلوچستان ہائی کورٹ اور تمام ماتحت عدالتوں میں وکلا تنظیموں کی اپیل پر عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔
مستونگ بازار اور کانگ درینگڑھ میں تمام دُکانیں، کاروبار اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند ہیں اور علاقے میں ٹریفک بھی بہت کم ہے۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کو درینگڑھ، کانک کردگاپ، مستونگ اور دیگر قریبی علاقوں میں سُپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔
نواب زادہ سراج رئیسانی کی نمازِ جنازہ ہفتے کی شام کوئٹہ کے ایوب گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس کے بعد اُن کی میت کو کانک میں اُن کے آبائی قبرستان میں سُپردِ خاک کردیا گیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی طرف سے واقعے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور پارٹی نے کوئٹہ شہر میں ہونے والا اپنا مرکزی جلسہ اور دیگر سیاسی سرگرمیاں تین روز کے لیے معطل کردی ہیں۔
پارٹی کی طرف سے صوبے کے مختلف علاقوں میں اس واقعے کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہر ے بھی کیے جارہے ہیں۔
مستونگ دھماکے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے بھی 17 جولائی کو کوئٹہ میں ہونے والا مرکزی جلسہ منسوخ کردیا گیا ہے جس سے پارٹی کے چیئرمین عمران خان کو بھی خطاب کرنا تھا۔
مستونگ حملے میں ہلاک ہونے والے نواب زادہ سراج رئیسانی پر 2011ء میں بھی ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں اُن کے بیٹے میر حقمل رئیسانی ہلاک ہوگئے تھے۔
سراج رئیسانی بلوچستان کے سردار نواب غو ث بخش رئیسانی کے بیٹے اور رئیسانی قبیلے کے موجودہ سردار نواب اسلم رئیسانی اور نواب زادہ لشکری رئیسانی کے بھائی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار رئیسانی خاندان کا شمار بلوچستان کے اُن نوابوں اور سرداروں میں کرتے ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کا ایک روزہ سوگ کا اعلان
دریں اثنا انتخابی سرگرمیوں پر حالیہ حملوں کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وفاقی حکومت نے اتوار کو ملک بھر میں سرکاری طور پر سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کے دفتر سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نے وزارتِ داخلہ کو یومِ سوگ منانے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد وزارتِ داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق یومِ سوگ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے منایا جائے گا جس کے دوران سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران انتخابی سرگرمیوں پر اب تک تین بڑے دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں جن میں دو امیدواروں - ہارون بلور اور سراج رئیسانی - سمیت 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 130 سے زائد زخمی ہوئے۔
مرتضیٰ زہری کی وڈیو رپورٹ: