پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری مؤقر ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) نے ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیوں اور خوف کی مستقل فضا پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی حکومت اور بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت ہو اور اخبارات اور صحافی کسی بھی قسم کے خطرات یا تشدد سے آزاد ہوں۔
ایچ آر سی پی کی طرف سے اس مطالبے کو بھی دہرایا گیا ہے کہ آزاد پریس جمہوری نظام کے لیے انتہائی ضروری ہے اور یہ ’’تمام نقطہ ہائے نظر، اگرچہ یہ ایک دوسرے سے متضاد ہو سکتے ہیں، کا احاطہ کرتا ہے۔“
کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عسکری تنظیموں کی دھمکیوں کے باعث بلوچستان میں تقریباً ایک ماہ سے اخبارات کی ترسیل اور تقریباً 15 پریس کلب بند ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند گروپوں نے مبینہ طور پر حال ہی میں حب پریس کلب اور تربت میں اخبارات فروخت کرنے والی ایک دکان پر دستی بموں سے حملہ کیا تھا۔
جب کہ کمیشن کے مطابق بلوچ مسلح تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں نے آواران کے علاقے میں اخبارات لے جانے والی ایک وین کے ٹائر بھی پھاڑ دیے تھے اور اخبارات کو جلا دیا تھا۔
بیان کے مطابق ’’نتیجتاً، بلوچستان حکومت نے تین مقامی اخبارات روزنامہ انتخاب، بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کو بند کردیا۔“
ایچ آر سی پی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایسی ’’جابرانہ‘‘ فضا میں جہاں آزادیٔ اظہار کو پہلے ہی متعدد پابندیوں اور خطرات کا سامنا ہے، اخبارات پر موجودہ پابندی صورتِ حال میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی۔
کمیشن کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ یہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ اختلافی آرا کے اظہار کے لیے صحافت کی آزادی کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے کسی قسم کا جبر نہ کیا جائے خواہ وہ مالیاتی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں۔
’’جنگجوﺅں کی طرف سے صحافت کو دھمکیوں کا نتیجہ صرف یہ ہی نکلے گا کہ ان کا نقطہ نظر سامنے نہیں آسکے گا“۔
ایچ آر سی پی کی طرف سے تمام فریقین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی تمام کارروائیاں فوری طور پر ترک کر دیں جو صحافیوں، اخبارات کے ملازمین، ہاکروں اور ان کے روزگار کے لیے خطرے کا موجب ہیں۔
جب کہ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے بلوچستان میں تعینات سکیورٹی فورسز سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اخبارات کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو محفوظ ماحول فراہم کریں۔
’’اخبارات کی بندش اور ان کے ملازمین کو درپیش خطرات کا نتیجہ محض یہ ہی نکلے گا کہ صوبے میں اظہارِ رائے کی آزادی مزید زیرِ عتاب آئے گی اور سکیورٹی کی صورتِ حال بتدریج زوال پذیر ہوگی جس کے باعث معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہوگا۔‘‘
پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے بھی ایسے ہی مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد سمیت صوبے میں آباد تمام افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔