پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ہفتہ کی شام ہونے والے ایک زوردار بم دھماکے میں کم ازکم 75 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکا کوئٹہ کے علاقہ کرانی روڈ پر ہوا اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
زخمیوں کو فوری طور پر بولان میڈیکل کیمپلکس اور ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا جہاں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
کرانی روڈ ہزار شعیہ برادری کی آبادی والے علاقے ہزارہ ٹاؤن کے قریب واقع ہے جہاں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے بم دھماکوں میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہزارہ شعیہ برادری کے شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے میں ناکامی پر برطرف کرتے ہوئے
جنوری کے وسط میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔
صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد کوئٹہ میں یہ پہلا بم دھماکا ہے۔
شعیہ برادری کی مختلف تنظیموں نے ہفتہ کو ہونے والے بم دھماکے کے خلاف اتوار کو صوبے میں ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
دری زبان بولنے والے ہزارہ لوگوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل پڑوسی ملک افغانستان سے نقل مکانی کی تھی اور زیادہ تر کوئٹہ میں آباد ہو چکے ہیں۔
ہفتے کا واقعہ اس سال شہر میں شیعہ کمیونٹی پر ہونے والا دوسرا مہلک ترین واقعہ ہے۔ جنوری کے مہینے میں ایک دوہرے بم دھماکے میں 92 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ متاثرین کے عزیزوں کے ساتھ ساتھ شیعہ کمیونٹی کے راہنما اتنے مشتعل ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے ہلاک شدگان کو دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
وہ احتجاج تب ہی ختم ہوا جب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صوبائی حکومت برطرف کی اور بلوچستان میں براہ راست فیڈرل نظام نافذ کیا۔
صوبائی گورنر نے کہا ہے کہ اتوار کو صوبے بھر میں سوگ منایا جائے گا، جب کہ شیعہ کمیونٹی کی نمائندہ جماعتوں نے اس تازہ ترین حملوں پر احتجاج میں کوئٹہ میں ایک ہڑتال کی اپیل کی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ حالیہ دِنوں میں پاکستان میں، جہاں کی اکثریت سنی ہے، فرقہ وارانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکا کوئٹہ کے علاقہ کرانی روڈ پر ہوا اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
زخمیوں کو فوری طور پر بولان میڈیکل کیمپلکس اور ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا جہاں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
کرانی روڈ ہزار شعیہ برادری کی آبادی والے علاقے ہزارہ ٹاؤن کے قریب واقع ہے جہاں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے بم دھماکوں میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہزارہ شعیہ برادری کے شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے میں ناکامی پر برطرف کرتے ہوئے
جنوری کے وسط میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔
صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد کوئٹہ میں یہ پہلا بم دھماکا ہے۔
شعیہ برادری کی مختلف تنظیموں نے ہفتہ کو ہونے والے بم دھماکے کے خلاف اتوار کو صوبے میں ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
دری زبان بولنے والے ہزارہ لوگوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل پڑوسی ملک افغانستان سے نقل مکانی کی تھی اور زیادہ تر کوئٹہ میں آباد ہو چکے ہیں۔
ہفتے کا واقعہ اس سال شہر میں شیعہ کمیونٹی پر ہونے والا دوسرا مہلک ترین واقعہ ہے۔ جنوری کے مہینے میں ایک دوہرے بم دھماکے میں 92 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ متاثرین کے عزیزوں کے ساتھ ساتھ شیعہ کمیونٹی کے راہنما اتنے مشتعل ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے ہلاک شدگان کو دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
وہ احتجاج تب ہی ختم ہوا جب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صوبائی حکومت برطرف کی اور بلوچستان میں براہ راست فیڈرل نظام نافذ کیا۔
صوبائی گورنر نے کہا ہے کہ اتوار کو صوبے بھر میں سوگ منایا جائے گا، جب کہ شیعہ کمیونٹی کی نمائندہ جماعتوں نے اس تازہ ترین حملوں پر احتجاج میں کوئٹہ میں ایک ہڑتال کی اپیل کی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ حالیہ دِنوں میں پاکستان میں، جہاں کی اکثریت سنی ہے، فرقہ وارانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔