اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یمن میں اتحادیوں کی جانب سے ایک اسپتال پر ہوائی حملے کی سخت مذمت کی ہے۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ اسپتال اور طبی عملے کو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں بان کی مون نے شمالی یمن کے سدا صوبے میں کئے گئے ہوائی حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف احتساب کو یقینی بنانے کے لئے فوری تحقیقات پر زور دیا ہے۔
طبی خیراتی ادارے، ’ڈاکٹرز وداؤوٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ منگل کو سعودی قیادت میں ہونے والے ہوائی حملے میں اسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، یہاں کوئی سنگین ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ ایم ایس ایف کے مطابق اس طبی سہولت پر ایک رات میں کم ازکم دو بار بم برسائے گئے جس کے نتیجے میں عمارت تباہ ہو کر رہ گئی۔
ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ عملے اور شدید زخمی مریضوں کو دونوں ہوائی حملوں کے دوران ہی استپال سے نکال لیا گیا تھا۔
یمن میں گروپ کے ڈائریکٹر حسن بوسنین نے ہوائی حملوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’ڈاکٹرز وداؤوٹ بارڈرز‘ نے حال ہی میں اتحادی حکام کو اسپتال کا جی پی ایس بھی فراہم کردیا تھا۔
سدا صوبے میں جس جگہ یہ ہوائی حملے کئے گئے وہ ان دنوں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ حوثی فورسز کے کنڑول میں ہے۔
سعودی قیادت میں اتحادی گزشتہ مارچ سے یمن پر ہوائی حملے کر رہے ہیں اور ان حوثی باغیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جنھوں نے صدر ابو منصور ہادی کو ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔
منصور ہادی ہوائی حملوں کے بعد زمینی افواج کی مدد سے وطن واپس لوٹ کر حوثی باغیوں کے قبضے سے کئی علاقوں کو چھڑانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں امریکی فورسز نے بھی افغانستان کے صوبے قندوز میں ایم ایس ایف کے ایک اسپتال پر بمباری کی تھی، جس میں 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کی عالمی کمیشن تحقیقات کر رہی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق، اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ گہرے انسانی بحران اور جاری تنازعہ کے باوجود، 70 ہزار سے زائد صومالی اور اتھوپیائی باشندے پناہ کی تلاش میں سمندر کے راستے یمن پہنچے ہیں اور یمن اس وقت 2 لاکھ 64 ہزار ان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جن میں سے تقریباً تمام ہی صومالی ہیں۔