بنگلہ دیش کی ایک خصوصی عدالت نےایک ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی کو مبینہ طور پر 'توہین"کا مرتکب ہونےکے جرم میں سزا سنائی ہے۔
ڈیویڈ برگمین نے اپنے بلاگ اور مضامین میں اس حوالے سے سوال اٹھائے تھے کہ بنگلہ دیش کی 1971ء کی "جنگ آزادی " میں لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے تھے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ میں تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے یف پی کے مطابق خصوصی ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ برگمین کی طرف سے لکھے گئے ایک بلاگ اور دو مضامین میں انہوں نے "قوم کے احساسات کو ٹھیس پہنچائی" اس لیے انہیں 5000 ٹکا (65 ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں برگمین کو ایک ہفتہ قید کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
اس مقدمے سے بنگلہ دیش کے آزادی اظہار سے متعلق عزم کے ایک امتحان کے طور پر بھی دیکھا جارہا تھا کیونکہ برگمین نےبنگلہ دیش کی تاریخ کے ایک متنازع معاملہ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
خصوصی عدالت کے سربراہ عبید الحسن نے عدالت میں کہا کہ،" آزادی اظہار اچھی نیت اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ" ڈیویڈ برگمین کو نا صحیح یقین تھا اور نا ہی ان کا کوئی عوامی مفاد تھا"۔
برگمین کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے بلاگ "صحیح، مناسب اور منطقی" تھے اور ان کے عدالت سے متعلق بیانات "مناسب تنقید کے جائز دائرے کے اندر آتے ہیں"۔
برگمین ایک مقامی اخبار کے مدیر ہیں اور وہ گزشتہ دس سال سے بنگلہ دیش میں رہائش پذیر ہیں۔
جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل نے کئی افراد کو سزائے موت سنائی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق ملک کی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی سے ہے۔
حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی ان مقدمات پر تنقید کرتے ہوئے کہتی آئی ہیں کہ ان کے سیاسی محرکات ہیں اور بقول ان کے، ان کا مقصد حزب مخالف کو نشانہ بنانا ہے۔
جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل میں کی جانے والی سماعت بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔