|
بنگلہ دیش نے جمعرات کو جماعت اسلامی پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت پابندی عائد کردی ہے، جس کا اطلاق اسکے اسٹوڈنٹ ونگ اور دوسرے ایسو سی ایٹ اداروں پر بھی ہوگا۔
حکومت نے جماعت اسلامی کو ایک "عسکریت پسند اور دہشت گرد" تنظیم سے تعبیر کیا۔
جماعت پر یہ پابندی ہفتوں تک جاری رہنے ولے ان پر تشدد مظاہروں کے خلاف پکڑ دھکڑ کی ایک ملک گیر کارروائی کے سلسلے میں عائد کی گئ ہے جن میں 200 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کے سیاسی شراکت داروں نے جماعت اسلامی، اس کے اسٹوڈنٹ ونگ اور ساتھی تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طالبعلموں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی تھی ۔
ایک سرکاری سرکلر کے مطابق ،جسے ایسو سی ایٹڈ پریس نے دیکھا ہے، بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو کہا کہ یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔
15 جولائی سے اب تک ملک بھر میں کم از کم 211 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ کو گرفتار کیا گیاہے۔
جماعت اسلامی کا رد عمل
پارٹی کی طرف سے جمعرات کو کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن پارٹی کے سربراہ شفیق الرحمان نے، حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر قانون انیس الحق کے اس بیان کے بعد ،کہ کوئی فیصلہ ناگزیر ہے، ایک بیان میں کہا کہ اس طرح کے کسی بھی فیصلے کی مذمت کی جانی چاہیے۔
شفیق الرحمان نے کہا کہ "ہم بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر پابندی کے غیر قانونی، غیر مجاز اور غیر آئینی فیصلے کی شدید مذمت اور اس کےخلاف احتجاج کرتے ہیں۔ عوامی لیگ کی زیر قیادت 14 جماعتی اتحاد ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ ایک سیاسی جماعت یا اتحاد دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتا۔ ‘‘
انہوں نے کہا، "بنگلہ دیش کے قوانین اور آئین اس طرح کا اختیار نہیں دیتے۔ اگر کسی ایک پارٹی پر کسی دوسری پارٹی یا اتحاد کی طرف سے پابندی لگانے کا رجحان شروع ہوتا ہے، تو یہ افراتفری اور ریاستی نظام کے خاتمے کا باعث بنے گا۔"
جماعت اسلامی کی تشکیل اور تاریخ
جماعت اسلامی کی بنیاد 1941 میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں ایک اسلامی اسکالر نے رکھی تھی اور 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کے ایک آزاد ریاست کے طور پر قیام کے خلاف مہم چلائی تھی۔
پارٹی کے بیشتر سینئر رہنماؤں کو 2013 میں، عدالتوں کی جانب سے 1971 میں قتل، اغوا اور عصمت دری سمیت انسانیت کے خلاف جرائم میں سزا سنائے جانے کے بعد یا تو پھانسی دے دی گئی یا جیل بھیج دیا گیا۔
پارٹی نے 1971 میں پاکستان کے خلاف نو ماہ کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج کی مدد کےلیے ملیشیا گروپس تشکیل دیے تھے۔بنگلہ دیش نے 16 دسمبر 1971 کو پڑوسی ملک بھارت کی مدد سے آزادی حاصل کی تھی ۔
بنگلہ دیش کا کہنا ہےکہ جنگ کے دوران 30 لاکھ لوگ مارے گئے،دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی اور تقریباً 10 لاکھ لوگ فرار ہو کر پڑوسی ملک بھارت چلے گئے۔
جماعت اسلامی کے خلاف پابندیوں کی تاریخ
بنگلہ دیش جماعت اسلامی پرالیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی رجسٹریشن کی مسنوخی کے بعد 2014 سے تین قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
2013 میں ہائی کورٹ نے پارٹی کو یہ کہتے ہوئے انتخابات میں شرکت کے لیے نااہل قرار دیا کہ اس کے آئین نے سیکولرازم کی مخالفت کرکے قومی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم اسے سیاسی سرگرمیوں مثلاً جلسوں، ریلیز اور بیانات سے نہیں روکا گیا۔
دس سال بعد، 2023 میں سپریم کورٹ نے طویل قانونی جنگ کو ختم کرتے ہوئے اور پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے یا پارٹی کے علامتی نشانات کے استعمال سے روکتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس پر مکمل پابندی نہیں لگائی۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد 1971 میں بنگلہ دیش کے بانی رہنما اورشیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کی انتظامیہ کے تحت بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور مظالم میں جماعت اسلامی کے مبینہ کردار کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
یہ پابندی ایک فوجی بغاوت میں مجیب الرحمان کی اپنے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ قتل کیے جانے کے ایک سال بعد 1976 میں ختم کر دی گئی۔
اس فوجی بغاوت میں صرف حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ زندہ بچی تھیں کیوں کہ وہ 1975 میں جرمنی کا دورہ کر رہی تھیں۔
جماعت پر اس سے قبل پاکستان میں فرقہ وارانہ کردار کی وجہ سے دو مرتبہ 1959 اور 1964 میں بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم