رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: شیخ مجیب الرحٰمن کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی


شیخ حسینہ اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر کے ہمراہ : فائل فوٹو
شیخ حسینہ اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر کے ہمراہ : فائل فوٹو

بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے الزام میں ان کے مبینہ قاتل عبدالمجید کو اتوار کی صبح پھانسی دے دی گئی۔

فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق ملزم فوج میں کپتان تھا اور اسے واقعے کے 45 سال بعد منگل 7 اپریل کو اس وقت گرفتار گیا تھا، جب وہ 25 سال تی مفرور رہنے کے بعد بھارت سے واپس آیا تھا۔ تاہم اسے حراست میں لیے جانے سے ایک ہفتے کے اندر اندر پھانسی دے دی گئی۔

موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن، بنگلہ دیش کے قیام کے تقریباً 4 سال بعد 15 اگست 1975 کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کو جدید بنگلہ دیش کا معمار کہا جاتا ہے۔ وہ 17 مارچ 1920 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1948 میں ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کی تھی۔

وہ 26 مارچ 1971 سے 11 نومبر 1972 تک ملک کے صدر بھی رہے، انہیں 1972 سے 1975 تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کا بھی موقع ملا۔

وہ 25 جنوری 1975 سے 15 اگست 1975 تک دوسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے اور بالآخر عہد صدارت کی دوسری مدت کے دوران ہی انہیں فوجی بغاوت کے تنیجے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ملزم عبدالمجید کو قتل کے الزام میں ایک درجن سے زائد افسران کے ساتھ 1998 میں ان کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

شیخ حسینہ واجد اپنے والد کی تصویر کے ہمراہ
شیخ حسینہ واجد اپنے والد کی تصویر کے ہمراہ

بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے سن 2009 میں اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پانچ ملزمان کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا تھا جن میں کئی افراد کو کچھ عرصہ پہلے پھانسی ہو چکی ہے۔

عبدالمجید کو انسداد دہشت گردی پولیس نے منگل 7 اپریل کی صبح ڈھاکہ میں رکشہ سے فرار کی کوشش کے دوران گرفتار کیا تھا۔

بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ جیل حکام نے صدر کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہونے پر عبدالمجید کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 12 بج کر ایک منٹ پر ڈھاکہ کے مضافات میں واقع سب سے بڑی جیل میں پھانسی دی۔

عبدالمجید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 1996 میں بھارت فرار ہو گیا تھا اور پچھلے مہینے ہی بنگلہ دیش واپس آیا تھا۔

بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں عبدالمجید کی گرفتاری کو شیخ مجیب الرحمٰن کی صد سالہ زندگی کا بہتر تحفہ قرار دیا تھا۔

ہفتے کی شام عبدالمجید کے اہل خانہ نے ان سے آخری ملاقات کی۔ عبدالمجید کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ فوجی ملازمت سے برطرف کئے جانے کے بعد بھی عبدالمجید کئی سرکاری عہدوں پر کام کرتا رہا تھا۔

ڈھاکہ پولیس چیف معروف حسین سردار نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ کیرانی گنج جہاں یہ جیل واقع ہے وہاں اور اس کے اطرافی علاقوں میں سیکیورٹی سخت کرتے ہوئے جیل کے ارد گرد پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم حسینہ 1975 میں اپنے والد پر حملے کے وقت اپنی بہن کے ہمراہ یورپ میں تھیں۔

پھانسی پر عمل درآمد کے بعد عبدالمجید کو اس کے آبائی علاقے نارائن گنج ،سونار گاؤں میں اتوار کو الصبح سپرد خاک کر دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG