بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں غیرقانونی طریقوں یا مداخلت کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔جنوبی ایشیائی ملک کی جانب سے یہ اعلان امریکہ کی جانب سے بنگلہ دیشی شہریوں پر پابندی کے انتباہ کے بعد سامنے آیا ہے۔
بنگلہ دیش میں 2014 اور 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی اپوزیشن کو نشانہ بنائے جانے کے الزامات کے بعد تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِاعظم شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
بدھ کو امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کو فروغ دینے کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت ہم ان افراد اور ان کے اہل خانہ پر ویزا کی پابندیاں لگا سکتے ہیں جو بنگلہ دیش میں جمہوری انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار یا اس میں ملوث ہوں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے اس کے جواب میں ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت انتخابات کے عمل میں غیر قانونی طریقوں یا مداخلت کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ انتخابی عمل کی سخت نگرانی کی جائے گی اور اس میں الیکشن کمیشن کے منظور کردہ بین الاقوامی مبصرین بھی شامل ہوں گے۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ کمیشن مکمل آزادی، ساکھ اور کارکردگی کے ساتھ اپنے امور انجام دینے کی صلاحیت برقرار رکھتا ہے۔
ادھر سیاسی تجزیہ کار بدیع العالم نے امریکی پابندیوں کا خیرمقدم کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پابندی کو ایک احتیاطی اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول یہ پابندی کسی فرد کی جانب سے انتخابات کو اپنے حق میں بدلنے کی کوششوں کو روک سکتی ہے۔
شیخ حسینہ 2009 سے بنگلہ دیش میں اقتدار پر سخت کنٹرول جمائے ہوئے ہیں اور ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی صحافت کو ختم کرنے، اختلافَ رائے کو دبانے اور ناقدین جن میں مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے بہت سے حامی بھی شامل ہیں کو جیل بھیجنے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
بی این پی حسینہ واجد سے مستعفی ہونے اور آئندہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے جو جنوری 2024 میں ہونے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ حکومت اس مطالبے کو مسترد کر تی ہے۔
بی این پی کے سینئر رہنما ظہیر الدین سوپن کا کہنا ہے کہ یہ نئی ویزا پالیسی ایک مرتبہ پھر ثابت کرتی ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یقین ہے کہ اس حکومت کے تحت صاف اور شفاف الیکشن ممکن نہیں ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔