بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے چھوٹے قرضوں کےاپنے منصوبے پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والی شخصیت محمدیونس کی ، اپنےقائم کردہ گرامین بینک کی سربراہی سے حکومت کی جانب سے برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھاہے۔ تاہم بین الاقوامی دباؤ کے باعث بنگلہ دیشی حکومت اس تنازع کے حل کے لیے ان سے بات چیت کررہی ہے۔
حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں محمد یونس کی اپیل پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے یک لفظی فیصلے میں کہاہے۔ نامنظور۔
بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نے 70 سالہ محمد یونس کو مارچ میں گرامین بینک کی سربراہی سے یہ کہتے ہوئے برطرف کردیا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کی مقرر کردہ 60 سال کی عمر کے بعد ملازمت جاری رکھ کر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اگرچہ یونس اعلیٰ ترین سطح پر قانونی جنگ ہار چکے ہیں تاہم اب بھی یہ توقع کی جاری ہے کہ ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ غربیوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرنے والے گرامین بینک سے ان کا تعلق نہ توڑ سکے۔
بین الاقوامی دباؤ آنے کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے حالیہ دنوں میں محمد یونس کے ساتھ گفت و شنید میں مصروف رہی ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس کی اپنے قائم کردہ بینک سے برطرفی کے بعد بنگلہ دیش کو امریکہ ا ور کئی دوسرے ملکوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
عالمی شہرت یافتہ ماہرمعاشیات نے غریبوں کے لیے آسان شرائط پر چھوٹے قرضوں کا جو پروگرام شروع کیا تھا ، اس سے بنگلہ دیش میں غربت دور کرنے میں مدد ملی اور ان کے اس تجربے سے کئی دوسرے ملکوں نے فائدہ اٹھایا۔ محمد یونس کی ان خدمات کے اعتراف میں 2006 کا نوبیل انعام دیا گیاتھا۔
گذشتہ ماہ بنگلہ د یش کے اپنے دورے کے دوران جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک نے ڈھاکہ میں حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ یونس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کسی حل کی کوشش کریں جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
عوامی لیگ کے ایک اعلیٰ عہدے دار عبدالجلیل کا کہناہے کہ وہ کسی سمجھوتے کے بارے میں پرامید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر گفت وشنید جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
مگر اب سپریم کورٹ کی جانب سے اپیل مسترد ہونے کامطلب یہ ہے کہ محمد یونس اب اپنے عہدے پر واپس نہیں جاسکتے۔ انہوں نے اپنی برطرفی کے خلاف پہلے ہائی کورٹ کو رجوع کیاتھا اور پھر ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف وہ سپریم کورٹ میں گئے تھے۔
محمد یونس اور ان کے حامیوں کا کہناہے کہ گرامین بینک کی سربراہی سے ان کی برطرفی کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں اور یہ اقدام ان کے گرامین بینک کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے حکومتی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ محمدیونس 2007ء میں اپنی ایک سیاسی پارٹی قائم کرکے ، جو اگرچہ کچھ ہی عرصے میں ختم ہوگئی تھی، حکمران جماعت عوامی لیگ کی حمایت کھوچکے ہیں۔