ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن کے حوثی باغی جنگ کے رخ کو تبدیل کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک اہم شمالی شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ایران کے حمایت یافتہ باغیوں کی جانب سے تیل سے مالا مال شمالی علاقے میں حکومت کے آخری گڑھ ماریب کے لیے اپنی مہم دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اس ماہ شدید جھڑپوں میں سینکڑوں جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
ماریب پر قبضہ جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ یمن کے شمالی علاقوں پر باغیوں کے قبضے سے انہیں تیل کے وسائل پر کنٹرول اور کسی بھی امن مذاکرات میں بالا دستی حاصل ہو جائے گی۔
اس قبضے کے نتیجے میں جنگ سے متاثرہ دوسرے شہروں سے اپنی جانیں بچا کر اس علاقے کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے 20 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
صنعا سینٹر فار اسٹریٹجک سٹڈیز کے سینئر محقق عبدالغنی الاریانی نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ماریب کی جنگ یمن کے مستقبل کا تعین کرے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ "صوبے کا زیادہ تر حصہ حوثیوں کے کنٹرول میں ہے اور اب وہ شہر کے قریب پہنچ رہے ہیں۔"
سن 2014 میں باغیوں کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے سات سال کے بعد وہاں سے 120 کلومیٹر (75 میل) مشرق میں واقع ماریب کو شدید خطرے کا سامنا ہے۔
اس قبضے نے اگلے سال فوری طور پر سعودی قیادت کے تحت حکومت کی مدد کے لیے مداخلت پر ابھارا۔
اس تکلیف دہ طویل جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو اقوام متحدہ نے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بے گھر افراد قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
اریانی کا کہنا تھا کہ، "شاید اس جنگ کی سب سے زیادہ قیمت مہاجرین کو ادا کرنی پڑے گی۔"
ماریب جنوبی اور شمالی علاقوں کے درمیان ایک سنگم پر واقع ہے اور یمن کے شمال کو کنٹرول کرنے کی کنجی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس کا سقوط ہوتا ہے تو حوثیوں کو حکومت کے زیر قبضہ جنوب میں بڑھنے کا حوصلہ مل سکتا ہے۔
میلکم ایچ کیر کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے احمد ناگی کا کہنا ہے کہ حوثیوں نے حالیہ ہفتوں میں ماریب کے ارد گرد نئے محاذ کھولنے کے بعد اہم پیش رفت کی ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''اگر وہ شہر پر قبضہ کر لیتے ہیں تو حوثی ماریب کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی علاقے کی طرف پیش قدمی کریں گے"۔
حوثیوں نے فروری میں ماریب پر قبضہ کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ شروع کیا تھا اور کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد، انہوں نے رواں ماہ اپنی مہم کا دوبارہ آغاز کیا، جس کے نتیجے میں اتحادی افواج کی جانب سے ان پر شدید فضائی بمباری کی گئی۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پیمبروک کالج کی محقق الیزبتھ کینڈل نے کہا ہے کہ حوثیوں کا قبضہ ماریب جنگ کا رخ بدل سکتا ہے۔
یہ حکومتی اختیار کے دعوؤں کے تابوت میں ایک اور کیل ثابت ہو گا اور کسی بھی متوقع امن مذاکرات میں حوثیوں کی فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کو مضبوط کرے گا۔
اریانی کے مطابق، اب بھی یہ امکان موجود ہے کہ حکومت کی طرف سے لڑنے والے ماریب کے قبائل اور جماعتیں شہر کی تباہی سے بچنے کے لیے حوثی معاہدے کو قبول کریں۔
انہوں نے کہا، "اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ شہر میں داخل ہوں گے۔ زیادہ امکان ہے کہ وہ معاہدہ کریں گے۔ کوئی بھی فریق شہر کے اندرخونی لڑائی میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔"
"اس کے بدلے میں، حوثی شہر کو چھوڑ دیں گے اور اس کی مقامی حکومت کو تسلیم کریں گے۔"
جنگ سے پہلے اس شہر میں 20،000 سے 30،000 باشندے تھے، لیکن اب اس کی آبادی کم ہو چکی ہے، کیونکہ بہت سے یمنی باشندے ملک کے دوسرے حصوں کی جانب فرار ہو گئے ہیں۔
صوبے میں تقریباً 139 پناہ گزین کیمپ موجود ہیں، حکومت کے مطابق ان میں تقریباً 22 لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔ اپنے گھر بارچھوڑنے والے یہ افراد ایک بار پھر جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔
اریانی نے کہا، "جیسے جیسے وہ منتشر ہوں گے، ان کے لیے انسانی امداد تک رسائی مشکل ہو جائے گی اور ماریب کی جنگ یمن کو قحط کے مزید قریب کر دے گی۔"
کینڈل نے کہا کہ "اگر باغیوں نے ماریب پر قبضہ کر لیا تو انسانی صورت حال پر اس کے اثرات سنگین ہوں گے"، جب کہ ناگی نے ایک "بہت بڑی" تباہی برپا ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔
جزیرہ نما عرب کے اس غریب ترین ملک یمن کی 3 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 80 فی صد کا انحصار امداد پر ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ اور امریکہ جنگ کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں، لیکن حوثیوں نے کسی بھی جنگ بندی یا مذاکرات سے قبل سعودی ناکہ بندی کے تحت 2016 سے بند صنعا ایئرپورٹ کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ناگی کا کہنا ہے کہ "ماریب پر قبضہ کرنے سے حوثیوں کو امن کو قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔ "
اس کے برعکس ماریب پر قبضے سے حوثیوں کو پورے یمن پر کنٹرول کے لیے دوسرے جنوبی علاقوں کی جانب بڑھے کی ترغیب ملے گی۔