ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ سعودی عرب سے اپنے کچھ دفاعی میزائل ہٹا رہا ہے۔ اے پی کا کہنا ہے کہ اس کے ایک سوال پر پنٹاگان کے پریس سیکرٹری جان کربی کا کہنا تھا کہ دفاعی اثاثوں کی تنصیب نو کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں اس سال کے اوائل میں امریکی محکمہ دفاع نے کہا تھا کہ بعض فورسز اور دفاعی صلاحیتیں مشرق وسطی سے واپس لائی جائیں گی۔ مشرق وسطی کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ کی نئی پالیسیوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ڈاکٹر فاروق حسنات مشرق وسطی کے امور کے ایک ماہر ہیں۔ وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب ترجیحات بدل گئی ہیں اور اب امریکہ اس طرح دوسرے ملکوں میں جا کر مدد نہیں کرنا چاہتا جیسے پہلے کی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خود مشرق وسطی میں بھی حالات بدل رہے ہیں اور خطے کے دو بڑے حریف ملک ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے اور اختلافات کم کرانے کے لئے خطے کی سطح پر کوششوں کا سلسلہ جاری ہے, عراق اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ دونوں ملک بھی اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیشتر وقت زمینی حقائق نظریاتی اختلافات پرحاوی ہو جاتے ہیں اور ملک سمجھوتوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان حالات میں خطرہ اس بات کا ہے کہ روس اور چین جیسے ملک خطے میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی نیابت کرنے والوں کو زیادہ فعال کر دیں گے۔
واشنگٹن کی فارن پالیسی کونسل کے نائب صدر ایلان برمن کا خیال ہے کہ یہ اہم علامتی اقدامات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا امریکی اقدامات سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس سے بس یہ ہو گا کہ سعودی عرب کے لئے امریکی حمایت میں تبدیلی نظر آئے گی۔ اور چونکہ یہ تبدیلی ایک وسیع پس منظر میں دیکھی جائے گی، اس لئے ریاض میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی اور پختگی کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سے سعودی عرب کے حریف ایران کو کچھ فائدہ پہنچے گا، ایلان برمن نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایران کو فوجی اعتبار سے کوئی فائدہ ہو گا۔ لیکن جب ایسا لگے گا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کمزور ہو رہے ہیں اور امریکہ وہاں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا، تو اس سے ایران فائدہ اٹھا سکتا ہے
نیویارک کی سٹی یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ کار جہانگیر خٹک نے اس موضوع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بعض دفاعی نظاموں کی تنصیب نو کے لئے امریکہ کی توجیح یہ ہے کہ امریکہ کو اس وقت چین اور روس کی جانب سے جو اسٹریٹیجک چیلنجز درپیش ہیں، ان کے پیش نظر یہ اقدامات ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بطور ایک اتحادی عرب دنیا میں ہمیشہ سے بہت مقبول رہا ہے اور عرب ملک اس کی حفاظتی چھتری پر ہمیشہ بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ اس لیے وہاں ایک قسم کی مایوسی تو ضرور نظر آئے گی، لیکن مشرق وسطی میں اب ایک نئی سوچ بھی ابھر رہی ہے اور سعودی عرب اور ایران اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور عراق ان کوششوں میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر حالات اسی سمت جاتے ہیں جدھر اس وقت جاتے نظر آ رہے ہیں تو خطے کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ کا وہاں اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔ اس میں کمی ضرور ہو گی اور اسے پر کرنے کے لئے روس اور چین کوشش کریں گے۔ خواہ وہ ہتھیاروں کے بڑے سودوں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ روس بھی اچھے دفاعی نظام بناتا ہے اور ترکی ان سے یہ نظام خرید بھی چکا ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ دفاعی اثاثوں کی تنصیب نو کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ وہاں سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا ہے۔