رقہ کے شامی شہر کا داعش کے دہشت گرد گروپ سے قبضہ چھڑانے کی لڑائی ہر سمت پھیل چکی ہے۔
امریکی حمایت یافتہ کُرد قیادت والی 'سیرئن ڈیموکریٹک فورسز' شہر کے قدیم علاقے میں داخل ہوچکی ہیں، جہاں اُنھیں اس دہشت گرد گروپ کے فی الواقع دارلخلافے کے ایک تہائی رقبے پر کنٹرول حاصل ہے۔ یہ بات بتاتے ہوئے، امریکی اہل کاروں نے کہا ہے کہ زیر قبضہ علاقے پر کنٹرول بحال رکھنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔
ایس ڈی ایف اور 'فری سیرئن آرمی' میلیشیائوں کے آپسی تنازعات، جو پیش قدمی کے حصول کے لیے میدان میں اتری ہیں، ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ لیکن، سب سے بڑا مشکل مرحلہ داعش کے لڑاکوں کی جانب سے دفاع کا ارادہ لگتا ہے، جو موصل میں عراقی سلامتی افواج کے ساتھ شہری لڑائی کا پچھلے نو ماہ کا تجربہ رکھتے ہیں، اور حربی میدان میں بپھرے ہوئے ہیں۔
رقہ حملے کو اب ایک ماہ ہو چلا ہے، دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات، نشانہ باندھ کر فائر کھولنے اور سرنگوں کے بڑے جال سے چھپ کر وار کرنے کی وارداتیں عام ہیں، ساتھ ہی داعش شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ شدت پسند لڑاکے اِن تمام حربوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
ایس ڈی ایف کی ملیشیا کے افراد پر گولے برسانے کے لیے، داعش کے شدت پسند ڈرونز کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ حملے کے پہلے مہینے کے دوران 650 ہلاکتیں واقع ہوئیں، جن میں سے 224 شہری تھے۔
'سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس' کے مطابق، جو لندن میں قائم ادارہ ہے اور جس کا سرگرم کارکنوں پر مشتمل نیٹ ورک اسے اطلاعات فراہم کرتا ہے، اب تک کی لڑائی میں داعش کے 311 لڑاکے، جن میں سے چند کمانڈر بتائے جاتے ہیں، اور 'یوفریٹز وریتھ' نامی امریکہ کے لڑاکا فورس کے 106 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔