پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے دیوانہ وار عوامی محبت آج بھی کم نہیں ہوئی۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے ساڑھے تین برس گزر گئے لیکن منگل کوان کی 58 ویں سالگرہ پورے ملک میں اس قدر جوش و خروش سے منائی گئی کہ ان کی یاد میں ایک طرف سینکڑوں لوگوں نے خون کے چراغ جلائے تو دوسری جانب کم وبیش ایک لاکھ افراد نے خون کے عطیات دیئے۔
کراچی جیسا سب سے بڑا شہر ہو یا چھوٹے سے چھوٹا قصبہ ،منگل کو ہر طرف بے نظیر بھٹو کے ہی چرچے رہے۔ اخبارات ، ٹی وی ، ریڈیو اور انٹرنیٹ ۔ ۔ہر جگہ سالگرہ کا اہتمام نظر آیا۔ شہید جمہوریت کے لقب سے جانی جانے والی بے نظیر بھٹو کی سالگرہ ملک بھر میں اس قدر چاوٴ اور احترام سے منائی کہ ایک لاکھ سے زائد افراد نے ان کی یاد میں خون کے عطیات دیئے۔ اتنے عطیات اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تو ہے ہی ایک ایسی انوکھی مثال ہے جس کی تقلید شائد دوسری قومیں اور اگلی نسلیں بھی کرنا نہ بھولیں۔
سالگرہ کا اہتمام پاکستان پیپلز پارٹی‘ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن‘ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں ،دیہاتوں اور قصبوں میں بھی میں کیا گیا۔ دن بھر تقریبات منعقد ہوتی رہیں جبکہ مختلف شہروں میں خون کے عطیات کے لئے سینکڑوں کیمپس بھی لگائے گئے ۔ خون دینے والوں میں پاکستان کے صدر اور مرحومہ کے شوہر آصف علی زرداری ، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے تمام کارکن شامل تھے ۔
اس سے قبل پارٹی کے مرکزی قائدین‘ اراکین‘ وفاقی و صوبائی اسمبلی اور کارکنان نے نوڈیرو قبرستان میں بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر تمام علاقائی ہیڈکوارٹرز میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا جبکہ ملک بھر کی مساجد میں بے نظیر بھٹو اوران کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی روح کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے سابق وزیراعظم کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے نوڈیرو میں خون کا عطیہ دیا۔اس موقع پر ان کی صاحبزاد بختارو بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی موجود تھے۔
خون کا عطیہ دینے والوں میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عاشق اعوان بھی پیش پیش تھیں۔آصفہ بھٹو زرداری نے بھی خون کا عطیہ دیا۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے والوں کیلئے خون کا عطیہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے کا مقصد دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف پاک فوج کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
سالگرہ کے موقع پر منگل کو ہی بے نظیر بھٹو کی سوانح عمری کا بھی اجراء ہو ا جس کی خاص بات وہ 1100 تصاویر ہیں جو اس سے پہلے شائع نہیں ہوئیں۔ اسلام آباد کے لوک ورثہ میں آج بے نظیر بھٹو کی نایاب تصاویر کی نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا۔
پاکستان میں بھٹو خاندان کا سحر
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو خاندان ایک سحرکی سی حیثیت رکھتا ہے ۔ایسا سحر جونہ صرف پچھلے کئی عشروں سے' سر چڑھ کر 'بول رہا ہے بلکہ جو 'جکڑ' اس خاندانی سحر میں ہے وہ آج تک کسی اور خاندان کو حاصل ہی نہیں ہوئی۔ ملک کی ابتدائی تاریخ ذوالفقار علی بھٹو کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے تو بعد کے سال بینظیر بھٹو کے بغیر نامکمل۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اس خاندان نے ملک کے لئے جو قربانیاں دیں وہ بھی کسی اور خاندان کو نہیں نہ مل سکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر ان کی اولاد تک کوئی بھی طبعی موت نہ پاسکا۔ سچ پوچھئے تو موجودہ حکومت کا پائے تخت بے نظیر اور بھٹو خاندان کی قربانیوں پر ہی ٹکا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ناقدین بھی اس بات پر حیران ہیں کہ اس خاندان میں ایسا کیا ہے کہ لوگ اس سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں۔
علم سیاسیات کے ایک سینئر پروفیسر علی عابد کا کہنا ہے کہ "عجب اتفاق ہے کہ جن لوگوں نے کبھی بے نظیر بھٹو یا ان کے والد کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا وہ ان کے زیادہ دیوانے ہیں۔ وہ بھلے ہی پڑھنا لکھنا نا جانتے ہوں ، سیاست کی ابجد سے بھی لاعلم ہوں اور جن کی سمجھ میں ان رہنماوٴں کی باتوں کا صحیح مفہوم بھی نہ آتا ہو وہ بھی محض ان کی جادوئی شخصیت کے دیوانے ہیں ۔ کئی خاندانوں کی کئی نسلیں گزر گئیں مگر وہ بھٹو خاندان کے سحر سے الگ نہ نکل سکے۔
بھٹو خاندان ۔۔۔ناقدین کی نظر میں
سیاست سے گہری دلچسپی اور پیپلز پارٹی کو تنقید ی نگاہوں سے دیکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی شخصیت پرستی کا شاخسانہ ہے۔ بے نظیر بھٹو اس خاندان کی آخری اور اصل چشم و چراغ تھیں ۔ پارٹی اب جس دورسے گزر رہی ہے وہ اس کاعبوری اور آخری دور اقتدار ہے ، یہ اقتدار بھی بینظیر بھٹو کی موت سے ہمدردی کا نتیجہ تھا آگے گیپ ہی گیپ ہے۔
ایک اور ناقد کا کہنا ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے سب سے بڑے رہنما کی تمام تنقید کا محور ہی پی پی کی سربراہ قیادت ہے ورنہ یہی وہ رہنما ہیں جو تمام اختلافات کے باوجود بے نظیر کو بڑا لیڈر تسلیم کرتے تھے۔