رسائی کے لنکس

بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقام کو دھونے کی تفتیش کے آخری مراحل


بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقام کو دھونے کی تفتیش کے آخری مراحل
بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقام کو دھونے کی تفتیش کے آخری مراحل

مقامی میڈیاکے مطابق راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ سعود عزیز نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا ہے کہ انھوں نے جائے حادثہ کو دھونے کا فیصلہ آپریشنل ڈیوٹی پر موجود ساتھی افسران کی مشاورت سے خود ہی جاری کیا۔

اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکے قتل کے مقام کوفوری طور پر دھونے کی ازسرِنو تفتیش کا عمل جاری ہے اور توقع ہے کہ آئندہ ایک یا دو روز میں اس کی حتمی رپورٹ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کر دی جائے گی۔

وزیر اعظم کے حکم پر 24 اپریل کو قائم کی گئی ایک خصوصی تین رکنی کمیٹی یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ جائے واردات کو کیوں اور کس کے کہنے پر ایک گھنٹے بعد ہی دھو کر قمیتی شواہد کو ضائع کر دیا گیا تھا۔اس کمیٹی کی سربراہی کابینہ ڈویژن کے سیکرٹر ی چودھری عبدالرؤف کر رہے ہیں جب کہ دوسرے دو ارکان میں ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل سجاد غنی اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ فیاض احمد طوروشامل ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی کو سات روز میں اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور اب تک اس کے ارکان نے اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 40 افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں جن کا تعلق فوج اور سول اداروں سے ہے۔ تاہم کمیٹی کے ارکان نے اب تک میڈیا کو کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ایک خصوصی انٹرویو میں وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہر اُس مشتبہ شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جس کی نشاندہی کمیٹی کی رپورٹ میں کی جائے گی۔ تاہم انھوں نے بھی کمیٹی کے تحقیقات کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے گریز کیا۔

ایک روز قبل کمیٹی کے ارکان نے راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ کے قریب اُس مقام کو دورہ کر کے تفصیلی جائز بھی لیا جہاں بے نظیر بھٹو پر 27 دسمبر 2007 ء کو قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا اور اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات میں جائے واردات کی فرضی منظر کشی بھی کی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے اب تک جن سول اور فوجی افسران کے بیانات قلمبند کیے ہیں اُن میں اُس وقت راولپنڈی پولیس کے سربراہ سعود عزیز اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل ندیم اعجازشامل ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کے ایک قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔

اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس سربراہ سعود عزیز نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جائے واردت کو دھونے کا حکم اُس وقت کے ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل کے کہنے پر دیا تھا۔

لیکن مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں میجر جنرل ندیم اعجاز نے قتل کے مقام کو دھونے کا حکم دینے کا الزام مسترد کیا ہے۔ سعود عزیز نے بھی کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انھیں کسی نے تحریری طور پر یا پھر زبانی ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا اور انھوں نے جائے حادثہ کو دھونے کا فیصلہ آپریشنل ڈیوٹی پر موجود ساتھی افسران کی مشاورت سے خود ہی جاری کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بے نظیر بھٹو کے قافلے میں موجود کالے رنگ کی بیک اپ گاڑی کا اچانک منظر سے غائب ہونے کے ذکر نے خود حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ مبینہ طور پر قاتلانہ حملے سے کچھ دیر پہلے رحمٰن ملک اور بابر اعوان اُس گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے یہ دونوں مرکزی رہنما اس وقت داخلہ اور قانون و انصاف کے وفاقی وزیر ہیں۔ مقامی میڈیا اور سیاسی مخالفین حکومت سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان دونوں وزرا کو بھی دوسرے سول اور فوجی افسران کی طرح اپنے عہدوں سے ہٹا کر شامل تفتیش کیا جائے لیکن حکومت ان مطالبات کو بلا جواز قرار دے رہی ہے۔

وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے وی او اے سے گفتگو میں دونو ں وزرا کا دفاع کر تے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری طور پر ” بیک اپ“ گاڑی کی طرف تمام بحث کا رُخ موڑا جا رہا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ شاید یہ گاڑی سارے حادثے کا باعث بنی۔ ان کے بقول بیک اپ گاڑی میں نہ تو ایسے آلات لگے ہو ئے تھے اور نہ ہی اس میں سکیورٹی گارڈز موجود تھے جو حادثے کو روکنے کا باعث بنتے۔ ان کے الفاظ میں:

”بیک اپ گاڑی کا (قافلے کے) ساتھ ہونے کا زیادہ سے زیادہ یہ فائدہ ہو سکتا تھا کہ جب محترمہ(بے نظیر بھٹو) کی گاڑی کو نقصان پہنچا اور وہ کچھ دور جا کر رک گئی تو اُس کے بعد انھیں بیک اپ گاڑی میں منتقل کرکے ہسپتال لے جایا جا سکتا تھا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر یہ گاڑی محترمہ کی گاڑی کے بالکل ساتھ ہوتی تو اسے بھی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ لیکن (بے نظیر بھٹو) کو اتنی شدید چوٹیں آچکی تھیں کو وہ تو گاڑی میں شہید ہو چکی تھیں۔ لہذا یہ جو رخ ادھر لے جایا جارہا ہے کہ دو وزیر، دو وزیر، کالی گاڑی، کالی گاڑی، یہ تو ایسا ہے کہ قتل بھی ہمارا ہوا ہے اور صفائیاں بھی ہم دے رہے ہیں۔ ارے بھائی اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے، مجھے جو ڈیوٹی دی گئی تھی وہ میں نے مناسب طریقے سے نہیں کی تو میری نیت پر شک تو نہ کرو“۔

XS
SM
MD
LG