پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے نمائندوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف مقدمے پر نظرثانی اوراُن کو سنائی گئی سزائے موت پر رائے کے حصول کے لئے صدر آصف علی زرادری کے عدالت عظمی سے رابطے کا ایک مرتبہ پھر دفاع کیا ہے۔
موجودہ اور سابق وزرا کے علاوہ صوبہ پنجاب اور گلگت بلتستان کے گورنروں نے بھی باور کرایا ہے کہ یہ اقدام ملک کے آئین کے عین مطابق ہے۔
اتوار کو جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا کہ اس بات کا سبھی اعتراف کر چکے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو کو سنائی گئی پھانسی کی سزا اُن کے ”عدالتی قتل“ کے مترادف تھی اور ریفرنس دائر کرنے کا مقصد اُن کے بقول عدلیہ کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنی تاریخ پر لگے سیاہ دھبے کو دھو ڈالے۔
وزیر قانون کے مطابق عدالت عظمیٰ میں ریفرنس دائر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ملک میں تمام ادارے آزاد ہیں اور اہم ترین فیصلہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
24 مارچ 1979ء کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں شامل ججوں کا حوالہ دیتے ہوئے بابر ایوان نے بالواسطہ طور پر الزام لگایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلہ صوبائی تعصب پر بھی مبنی تھا۔
لیکن قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ اب سیاسی رہنماؤں نے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید شروع کر دی ہے کیوں کہ اُن کے خیال میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کا عمل شروع ہونے سے کوئی بھی پاکستانی شہری ایسا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوگا۔
اس حوالے سے تازہ ترین بیان طویل عرصے تک موجودہ مخلوط حکومت میں شامل رہنے والی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے سامنے آیا۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’اس (ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی) سے بڑھ کر بھی حادثات ہیں۔ پاکستان بھی ٹوٹا ہے، اس حوالے سے بھی سوالات پیدا ہوں گے اُن سب چیزوں کو ری اُپن کیا جائے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’’کہیں پر لوگوں کو انصاف ملے اور کہیں پر نا ملے‘‘ درست نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ 32 سالہ پرانے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ بظاہر عوامی حلقوں میں جماعت کی ساکھ بہتر بنانے کی ایک کوشش اور عدالت عظمیٰ پر دباؤ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم وزیر قانون بابر اعوان نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی کی درخواست صرف ملک کا صدر ہی کر سکتا ہے اور ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس عہدے پر فائض شخصیات نے اُن کے بقول پیپلزپارٹی سے وفاداری نہیں کی۔
پیر کو پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے 32 سال مکمل ہو رہے ہیں اور اس موقع پر حکمران جماعت کے قائدین سمیت اس کے حامیوں کی کثیر تعداد بھٹو خاندان کے آبائی علاقے گڑھی خدا بخش میں جمع ہو رہی ہے اور توقع ہے کہ عدالت عظمی کو بھیجا گیا ریفرنس اس موقع پر کی جانے والی تقاریر کا مرکزی نقطہ ہو گا۔