رسائی کے لنکس

صفائی کا خبط الزائمر میں مبتلا کر سکتا ہے: تحقیق


کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں الزائمر کے مریضوں کی تعداد اور قوموں کی صفائی ستھرائی کی عادت کے درمیان پائے جانے والے تعلق کی نشاندھی کی گئی ہے

ضرورت سے زیادہ صفائی ستھرائی کی عادت وبال جان بھی بن سکتی ہے۔

محقیقین نے خبردار کیا ہے کہ صاف ستھرا رہنےکا خبط زندگی میں آگےچل کر الزائمر (یاداشت سے متعلق بیماری) میں مبتلا ہونے کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں الزائمر کے مریضوں کی تعداد اور قوموں کی صفائی ستھرائی کی عادت کے درمیان پائےجانے والے تعلق کی نشاندھی کی گئی ہے۔

محقیقین کہتے ہیں کہ امیر ملکوں میں صفائی ستھرائی پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہےاور انہی ملکوں میں الزائمر کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔تاہم، یہ پوشیدہ خطرہ ان ترقی پزیر ملکوں میں بھی موجود ہے جہاں صفائی ستھرائی کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشیشیں کی جا رہی ہیں۔

نئی تحقیق میڈیکل سائنس کی دنیا میں پہلے سے موجود 'ہائی جین ہائیپوتھیسیس' ( مفروضے) کی تصدیق کرتی ہےجس کی بنیاد اس قیاس آرائی پر رکھی گئی ہے کہ بچوں کی پرورش میں ضرورت سے زیادہ صاف ستھرا ماحول اور دھول مٹی سے احتراز ان کے قدرتی مدافعتی نظام کوغیرمتوازن بنانے کا سبب بنتا ہے جس سے بچوں کی قوت مدافعت کمزور رہتی ہے اور جسم بہت سے جراثیم کے خلاف لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

محقیقین اسی نظریہ کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ جراثیم سے کم سامنا ہونے کی وجہ سے جسم میں خون کے سفید خلیوں کے بننے کا عمل سست پڑجاتا ہے۔ خاص طور پرریگولیٹری T سفید خلیہ جو مدافعتی نظام کا انتہائی اہم ترین جزو ہےسب سے زیادہ متاثر ہوتا ہےجن کا کام جسم پرحملہ آور بیکٹریا سے لڑنا اور انھیں ختم کرنا ہوتا ہےٹی خلیوں کی کمی سےدماغ میں سوزش پیدا ہوتی ہےجو دماغی امراض کا باعث بنتی ہے۔

'جرنل ایوالوشن میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ' میں محقیقین نے پتا لگایا ہے کہ الزائمر کے مریضوں کے دماغ میں پائی جانے والی کئی طرح کی سوزش دراصل غیرمتوازن مدافعتی نظام کا نتیجہ ہوتی ہے۔


تحقیق کی سربراہ مالی فاکس کہتی ہیں کہ اسی مفروضے کو کئی دیگر الرجیز، مثلا استھما اور ایگزیما کے لیے بھی ذمہ دار بتایا جاتا ہے اوراب اس فہرست میں الزائمر کی بیماری کا بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔


وہ کہتی ہیں کہ ،'ہمارے مدافعتی نظام کو قاعدہ سے چلانے کے لیے فرینڈلی بیکٹریا سے دوستی کرنا انتہائی ضروری ہے ضرورت اس بات کیا ہے کہ ، ہم متوازن حد تک اپنی صفائی کا خیال رکھیں ۔'

تجزئیے کے مطابق، صفائی کا بہتر نظام اور شہری زندگی الزائمر کے واقعات میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ مختلف ممالک میں الزائمر کے مریضوں کی تعداد کے فرق پر یہ دونوں عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جن کی مجموعی شرح 42 فیصد بنتی ہے.

تحقیق میں192 قوموں کے صحت کے کوائف پر مبنی اعداوشمار کے تجزئیے سے معلوم ہوا کہ جن ملکوں میں انفیکشن کی شرح کم تھی وہاں الزائمر کے مریضوں کی تعداد زیادہ تھی۔

ایسےممالک میں جہاں کی تین چوتھائی آبادی شہری زندگی گزارتی ہے مثلا برطانیہ اورآسٹریلیا وغیرہ میں دیگر ملکوں کے مقابلے میں الزائمر کے مریضوں کی تعداد 10 فیصد زیادہ ہے جبکہ بنگلہ دیش اور نیپال میں دس میں سے ایک فرد کو الزائمر لاحق ہوتا ہے۔

تحقیق دانوں کے مطابق انیسویں صدی میں بہت تیزی سےعالمی سطح پر شہری زندگی کا رواج پروان چڑھا اور وہیں لوگوں کا جانوروں اور دھول مٹی سے واسطہ کم ہوتا چلا گیا ہے۔

موجودہ دور میں سب سے بڑا خطرہ ترقی پزیر ملکوں کو ہے جہاں لوگوں کی اوسط عمرمیں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی الزائمرغلبہ حاصل کرتا جارہا ہے۔ ایسے ملکوں میں پچاس فیصدافراد الزائمر کا شکار ہیں جبکہ، ایک اندازے کے مطابق،2025 تک تقریبا ستر فیصد افراد کا الزائمرکی بیماری میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

الزائمر سوسائٹی کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایک دلچسپ نظریہ ہے اگرچہ اس بیماری کے لیے صرف ایک وجہ کو ہی ذمہ دار نہیں ٹہرایا جا سکتا ہے، لیکن صحت مند خوراک، ورزش اور بلند فشار خون اور کولیسٹرول جیسے دیگرعوامل پر نظر رکھ کر اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔

الزائمرجسےعام طور پر معمر افراد کی بیماری کہا جاتا ہے لیکن پچاس سے ساٹھ برس کی عمر میں دماغی مرض ڈیمنشیا (یاداشت کی خرابی) میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے جس کی علامات الزائمر کی بیماری کا سبب بنتی ہیں اس بیماری کے دوران انسان کی یاداشت آہستہ آہستہ چلی جاتی ہے اور جس سے اس کے مزاج ، بات چیت کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے ۔برطانیہ میں 65 برس سے زائد عمر کے ہر تین میں سے ایک شخص کو الزائمر کا مرض لاحق ہے۔

XS
SM
MD
LG