گذشتہ عشرے کے دوران ایشیائی ممالک میں لوگوں کی آمدنیوں میں اضافے نےلاکھوں افراد میں بیرون ملک جا کر سیرو تفریح کرنے کا شوق پیدا کیاہے۔ ایک ایشیائی ملک ، جہاں عموماً غیر ملکی سیاح کم تعداد میں جاتے ہیں، اب یہ توقع کررہاہے کہ اس کا سیاحت کا شعبہ ترقی کرے گا جس سے اس کی ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
بھوٹان کے دارلحکومت تھمپو کے ایک ہوٹل میں مہمانوں کا استقبال روایتی بھوٹانی موسیقی سے کیا جارہاہے۔
بھوٹان کو ، جس کی وادیاں ان دنوں برف سے ڈھکی ہوئی ہیں، توقع ہے کہ وہ مہاتما بودھ کی تعلیمات ، روایتی آرٹ، منفرد فن تعمیر اور درختوں میں گھری پگڈنڈیاں اور آلودگی سے پاک ہوا سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
بھوٹان کی آبادی صرف سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ملک ایشیا کی دو بڑی معیشتوں بھارت اور چین کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے عہدے دار ایک طویل عرصے سے مقامی ثقافت کو غیر ملکی سیاحوں کے اثر سے بچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
دارالحکومت تھمپو سے تقریباً 55 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی پاروکی تفریح گاہ کے مالک تشرنگ توبگائے کا کہناہے کہ بڑے پیمانے پر سیاحت سے احتراز کرتے ہوئے علاقے کی ترقی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے بہت اچھے اقدامات کیے جارہے ہیں ، کیونکہ ہم ایک ساتھ بہت سے سیاحوں کا ہجوم نہیں چاہتے۔ چنانچہ ہماری توجہ زیادہ اہمیت کے حامل کم تعداد میں سیاحوں پر مرکوز ہے۔ یہ ایک چھوٹے ملک کے لیے اچھا نظریہ ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں سیاح آکر دوسرے ملکوں کی طرح ہماری ثقافت اور ورثے کو نقصان پہنچائیں۔
حالیہ کچھ برسوں کے دوران بھوٹان میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ 1974ء میں جب بادشاہت نے اپنے دروازے غیر ملکی سیاحوں کے لیے کھولے تو اس وقت 400 افراد بھوٹان گئے تھے۔ مگر چارعشرے بعد یہ تعداد 60 ہزار تک پہنچ گئی اور حکومت کو توقع ہے کہ 2013ء میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد سیاحت کی غرض سے بھوٹان آئیں گے۔
بھوٹان میں زیاد ہ تر غیر ملکی سیاحوں کا روزانہ کی تمام ضروریات کی فیس تقریباً 250 ڈالر ہے جس میں آمدروفت، ہوٹل، کھانا اور گائیڈ کے اخراجات شامل ہیں۔ اس فیس کا مقصد سیاحوں کی تعداد پر کنٹرول رکھناہے اور یہ امر یقینی بناناہے کہ صرف اعلیٰ سطحی سیاح ہی بھوٹان کے دورے پر آئیں۔ سیاحت کی آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک تہائی ملک میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہم پر صرف کیا جاتا ہے۔
بھوٹان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بدستور پن بجلی ہے جسے بھارت کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ لیکن بھوٹان کے سیاحت سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کیسانگ وانگدی کہتے ہیں کہ سیاحت کا شعبہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوچکاہے۔
ان کا کہناہے کہ حکومت کی ترجیحات میں سیاحت کا شعبہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے غربت کے خاتمے ، روزگار کی فراہمی میں مدد ملتی ہے اور یہ شعبہ سماجی اور معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
سیاحت کے حامیوں کو جہاں ایک طرف یہ توقع ہے کہ انفراسٹرکچر کی ترقی سے بھوٹانی باشندوں کی زندگیوں میں بہتری آئے گی وہاں انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ ندیوں اور راستوں میں پلاسٹک کی بوتلیں اور دوسرے کچرے کی موجودگی بعض سیاحوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
سیاحت کے عہدے داروں کا کہناہے کہ فی الحال سیاحوں کی کم تعداد کے باعث اس شعبے کو چلانے کے لیے زیادہ قواعدو ضوابط کی ضرورت نہیں ہے لیکن تعداد میں اضافے کے بعد اس سلسلے میں سنجیدہ قانون سازی درکار ہوگی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ سیاحت سے ماحول، ثقافت اور یہاں کے روایات کو نقصان نہ پہنچے۔