امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان ہفتے کے روز ایپیک سربراہ اجلاس کے دوران ورچوئل ملاقات ہونے جا رہی ہے۔ اس اجلاس کے دوران سربراہان کرونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے عالمی مسائل پر گفتگو کریں گے۔
اس برس نیوزی لینڈ ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) فورم کی میزبانی کر رہا ہے جس کا اجلاس ہفتے کو ہو رہا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے یہ اجلاس مسلسل دوسرے برس بھی ورچوئل کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایپیک کے 21 رکن ممالک معاشی مسائل پر گفتگو کریں گے۔
نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم جسینڈا آرڈن کے مطابق اس برس فورم کا ایجنڈا کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا ہے۔
ایپیک فورم کے رکن ممالک کی کل آبادی تین ارب افراد پر مشتمل ہے اور یہ ممالک دنیا کا 60 فی صد جی ڈی پی رکھتے ہیں۔ جس کا دائرہ چلی سے روس، اور تھائی لینڈ سے آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔
فورم کے حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی 340 اجلاسوں میں کافی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
فورم کی سینئر آفیشل میٹنگ کے چیئرمین وینگیلس ویٹالس نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایپیک کے ممبر ممالک نے ویکسین، ماسک، اور کئی طرح کی طبی مصنوعات پر سرحدی پابندیاں اور کئی اقسام کے محصول ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو ان کے مطابق کرونا وائرس کے خلاف لڑائی میں بہت اہم ہے۔
لیکن 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑی طاقتوں کے مابین کشیدگی ایپیک کے بند کمروں کی میٹنگ پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ایک اقتصادی فورم کے طور پر اس کا ہانگ کانگ، تائیوان اور چین بھی حصہ ہیں۔
تائیوان اور چین نے اس تجارتی گروپ کا حصہ بننے کی درخواست کر رکھی ہے۔ جب کہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان کا اس فورم میں داخلے کی مخالفت کرے گا کیونکہ چین کے مطابق تائیوان اس بات سے انکاری ہے کہ وہ چین کا حصہ ہے۔
آکلینڈ یونی ورسٹی کے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سٹیفن ہوڈلے نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 'امریکہ فرسٹ' پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سے بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالا ہے، امریکہ کی ترجیح بین الاقوامی تعلقات کو درست کرنے اور تجارتی اعتدال پسندی کی جانب واپس جا چکی ہے جس میں بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کی حمایت شامل ہے۔
تاہم بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی برآمدات اور کمپنیوں پر تجارتی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری پر عائد کردہ زیادہ تر پابندیوں کو جاری رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں چین مخالفت پر مبنی پالیسیوں پر بھی کام جاری ہے۔
ایسی ہی ایک پیش رفت تب سامنے آئی جب امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے جوہری آبدوزوں کے معاہدے کا اعلان کیا جس پر خطے میں کئی ممالک کی جانب سے چہ مگوئیاں سامنے آئیں کیونکہ اس معاہدے میں نیوزی لینڈ کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی نیوزی لینڈ کا ہمیشہ سے جوہری ہتھیاروں کے خلاف مؤقف رہا ہے۔
ہوڈلے کے مطابق امریکہ اور چین کے مابین مسابقت کو اس خطے کے نام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چین اس خطے کو ایشیا پیسفک جب کہ امریکہ انڈو پیسفک کہتا ہے۔ امریکہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کو شامل کرنا چاہتا ہے جو اس تنظیم کا حصہ نہیں ہے۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا نے خطے کے ممالک کو متاثر کیا ہے جو دنیا کی معیشت کے لیے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔
سن 2020 میں کرونا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے ابھی تک کئی ممالک نمٹ رہے ہیں جب کہ لاکھوں افراد غربت کا شکار ہوئے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے وزیر تجارت ڈیمئین او کونر نے منگل کے روز کہا کہ ایپیک کو عالمی ادارہ تجارت کے اجلاس سے پہلے ایک مضبوط پیغام بھیجنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ’’ہم پچھلے 75 برس میں سب سے بڑے معاشی بحران سے نمٹ رہے ہیں۔ ہمیں یہ پتہ ہے کہ تجارت ہی بحران سے نمٹنے کے لے اہم ہو گی۔‘‘