عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی نرخ بڑھنے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس اضافے کو اس لیے زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے کیوں کہ عوام کی قوتِ خرید ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
امریکہ میں مقیم صحافی مسعود ابدالی نے کہا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت میں سست روی کے سبب تیل کی قیمتیں کم ہوئی تھیں۔ اب دنیا کے ممالک کی معیشتیں بحال ہونے کے ساتھ ساتھ اسی تناسب سے تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسعود ابدائی نے کہا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اپنا نقصان پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا سبب 'سپلائی چین' کے مسائل بھی ہیں۔ کیوں کہ بعض بڑے ممالک کی بندرگاہوں پر آئل ٹینکرز پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو کلیر نہیں کیا جا رہا اور طلب اتنی ہی ہے جب کہ رسد کم ہو رہی ہے۔ اس لیے قیمتوں کا بڑھنا لازم ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ بیشتر بڑے ممالک کا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں ہے اور وہاں رسد پہنچ رہی ہے اور پاکستان میں تو تیل کی 20 سے 22 فی صد ضروریات مقامی طور پر پیدا ہونے والے تیل سے پوری ہوتی ہیں۔ اس لیے وہاں قیمتوں میں اتنے اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا تعلق عام آدمی کی قوت خرید سے بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ تیل امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی مہنگا ہوا ہے البتہ ان ممالک میں عام آدمی کی قوتِ خرید پاکستان کی نسبت بہتر ہے ۔ ان کے بقول پاکستان میں آمدنی کم اور قوتِ خرید بہت ہی کم ہے۔ اس لیے وہاں زیادہ تکلیف محسوس کی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مسعود ابدالی نے کہا کہ پاکستان کا سعودی عرب سے حال ہی میں معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت تین سال تک پاکستان کو ادھار تیل ملے گا۔ اس سے فائدہ اٹھا کر ریلیف عوام تک پہنچانا چاہیے۔
عالمی سطح پر طلب اور رسد پر انہوں نے کہا کہ دنیا میں تیل کی طلب تقریباً ساڑھے نو کروڑ بیرل ہے اور پیداوار نو کروڑ 45 لاکھ بیرل ہے جس میں ہر ماہ تیل پیدا کرنے والے ممالک چار لاکھ بیرل کا اضافہ کر رہے ہیں۔
قیمتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سال جنوری میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل تھی جو آج 80 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے۔ اس میں 100 اضافہ ہوا ہے اور اس کا اثر خاص طور سے پاکستان جیسے غریب ملک پر پڑنا لازم ہے۔
اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق کسی طور پر بھی آئی ایم ایف کے پیکیج سے نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا کہنا صرف یہ ہے کہ جو چیز جس قیمت پر آپ لے رہے ہیں اسی پر فروخت کریں اور کوئی سبسڈی یا رعایت نہ دیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب تو عالمی منڈی میں اس میں اضافہ ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کی کرنسی کی قدر کم ہوئی ہے اور جب کوئی چیز ڈالر میں خرید کر اس کو روپے میں تبدیل کیا جائے تو وہ مہنگی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب سستا تیل دینے کا ایک طریقہ حکومت کے پاس یہ تھا کہ وہ سیلز ٹیکس کم کر دے جس کی آئی ایم ایف کی جانب سے اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ایک فارمولا یہ بنایا گیا تھا کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوں گی تو حکومت ملک میں تیل کی قیمت کم نہیں کرے گی بلکہ ٹیکس میں اضافہ کر دے گی اور اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں زیادہ ہوں گی تو حکومت ٹیکس میں کمی کرکے قیمتیں اسی سطح پر رکھے گی۔ لیکن ابآئی ایم ایف نے اس کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔ اس لیے حکومت کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔
پاکستان میں صارفین کے تحفظ کی تنظیم کے رکن کوکب اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرائیوں سمیت روز مرہ کی عمومی اشیا کی قیمتوں میں غیر متناسب شرح سے اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کہا کہ ارباب اختیار بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ جب کہ عام آدمی ناقابلِ برداشت مشکلات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کا کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ ایسے میں عام آدمی اپنی مشکلات لے کر کس کے پاس جائے اور کہاں فریاد کرے۔