امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ وقت میں ہونے والے عسکری مکالمے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مکالمہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب رواں ماہ ہی امریکی دفاع بجٹ میں اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس اضافے سے صدر جو بائیڈن کی چین سے متعلق پالیسی واضح ہوتی ہے جس کا اہم پہلو بیک وقت مذاکرات اور لڑنے کی تیاری کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے رالف جیننگ کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو امریکہ کی سینیٹ نے نیشنل ڈیفنس اتھورائزین ایکٹ (این ڈی اے اے) کے ایک ورژن پر رائے شماری کی تھی۔
اس ورژن میں دفاعی اخراجات کے لیے770 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ جو اس رقم سے 25 ارب ڈالر زیادہ ہیں جس کی صدر بائیڈن نے درخواست کی تھی۔
علاوہ ازیں اس میں سات اعشاریہ ایک ارب ڈالر بھی شامل ہیں جو پیسیفک ڈیٹرینئس انیشی ایٹو کے لیے رکھے گئے ہیں جس کا مقصد چین کی توسیع پسندی پر نظر رکھنا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کی انڈو پیسیف کمانڈ، نیوی اور ایئرفورس کے نمائندوں نے منگل سے جمعرات تک چین کی پیپلز لیبریشن آرمی کی نیوی اور ایئرفورس کے اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات میں حصہ لیا۔ یہ مذاکرات ایشیا کے متنازع پانیوں کے اندر محفوظ رہنے سے متعلق تھے۔
منیلا میں قائم تنظیم 'ایشیا پیسفک پاتھ وے ٹو پراگرس فاونڈیشن' سے وابستہ ریسرچ فیلو ایرون ربینا کا کہنا ہے کہ امریکی فوج وہ سب کرتی ہے جو اسے کرنا ہوتا ہے جیسا کہ جنوبی بحیرہ چین میں نیوی گیشن آپریشن کرنا۔
ان کے بقول البتہ وہ یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ وہاں کچھ پہرے دار موجود ہیں اور وہ چین کے ساتھ گفتگو کے راستے بھی کھلے رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ نے سال 2019 میں جنگی بحری جہازوں کی جنوبی بحیرۂ چین سے گزر میں اضافہ کرتے ہوئے اسے سال میں 10 بار تک کردیا تھا۔
سال 2020 میں بھی اس تعداد کو دوہرایا گیا تھا۔ امریکی حکام اس گزر کو 'فریڈم آف نیوی گیشن آپریشن' کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور امریکہ ''عظیم تقابلی قوت'' ہیں۔ واشنگٹن مشرق اور جنوبی بحیرۂ چین میں دوسرے فریق کی وسعت پسندی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس پٹی پر واقع ممالک کو وہ اپنا اتحادی گردانتا ہے۔
ان کے مطابق صدر جو بائیڈن امریکہ کی جانب سے اس تقابل کو جاری رکھیں گے لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ کسی طرح کی متشدد اشتعال انگیزی کو روکا جا سکے گا۔
دفاعی مضبوطی اور مذاکرات ساتھ ساتھ
امریکی سینیٹ میں جس این ڈی اے اے بل کی منظوری دی گئی ہے، اس میں تائیوان کے دفاع میں کانگریس کی حمایت پر مبنی بیان بھی شامل ہے۔ جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محکمۂ دفاع میں چین کے مسلم اکثریتی علاقے ایغور اور دیگر علاقوں میں جبری مشقت سے تیار کیا گیا کوئی بھی سامان خریدنے پر پابندی ہے۔ اس قانون کو اب صدر بائیڈن کے دستخط کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوجی مذاکرات کا عمل 1998 میں شروع ہوا تھا اور اس کا مقصد خطرات کو کم کرنا اور فضا اور سمندر کے اندر آپریشنل سیفٹی کو بڑھانا تھا۔
جمعہ کو جاری بیان کے مطابق امریکہ اور چین کے عہدیداروں نے پروفیشنلزم کا معیار قائم رکھنے اور تحفظ سے متعلق واقعات کا جائزہ لیا ہے۔
چین 35 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسائل سے مالا مال جنوبی بحیرۂ چین کو اپنی ملکیت گردانتا ہے اور فوجی طور پر نسبتا کمزور ملک برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام کے دعوؤں کے برعکس مؤقف رکھتا ہے۔
امریکی بحری جہاز بھی آبنائے تائیوان کا سفر کرتے ہیں جو چین کے لیے ایک انتباہ ہے کہ وہ اس جزیرے پر حملے سے باز رہے جس کو وہ اپنا گردانتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ادارے ایشیا میری ٹائم ٹرانسپرنسی انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر گریگوری پالنگ کا کہنا ہے کہ 'شپ ٹو شپ پروٹوکول' اور ہاٹ لائنز کا فعال رہنا چین کے لیے امریکی فوج کی ترجیح ہے۔
پالنگ کے بقول "سفارتی حتیٰ کہ معاشی میدان میں کشیدگی ہونا معمول کی بات ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ایک کھلے تنازعے کی حدوں میں داخل ہو۔"
چین کے لیے دو جہتی حکمت عملی
صدر جو بائیڈن نے نومبر کے وسط میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ پہلے براہ راست رابطے میں اپنی چین پالیسی کا اعادہ کیا تھا۔
اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدتِ صدارت کے آخری دنوں میں چین کے ساتھ اعلیٰ سطح پر ڈائیلاگ کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر نے چینی صدر شی کے ساتھ گفتگو کے دوران اسٹرٹیجک خطرات کو کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا اور ساتھ یہ بھی باور کرایا تھا کہ امریکہ اپنے مفادات اور اقدار کے لیے بدستور کھڑا رہے گا۔
تجزیہ کار ربینا کے مطابق صدر بائیڈن چین کے ساتھ ایک نپا تلا تقابل چاہتے ہیں۔
ان کے بقول امریکہ اور چین کے درمیان گزشتہ ہفتے کے فوجی مذاکرات کے اثرات آئندہ ماہ نظر آنا شروع ہو سکتے ہیں۔
میری ٹائم سیکیورٹی ریسرچ فیلو کالن کوہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات اور اعتماد سازی کے لیے اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ بائیڈن اور شی کی گفتگو کا ایک اثر ہوا ہے۔
ادھر چین کے سرکاری ٹی وی نے امریکہ چین فوجی مذاکرات پر خاموشی اختیار رکھی ہے۔ البتہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی ملکیت اخبار چائنہ ڈیلی نے ایک برس قبل پیسیفک ڈیٹرئنس انیشی ایٹو کو چین کے لیے ''سخت اشاروں'' کے بجائے دیگر ایشیائی ممالک کے لیے ایک قیمت قرار دیا تھا۔