امریکی صدر جو بائیڈن برطانیہ میں اپنی ملاقاتوں کے بعد، نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ولنئیس پہنچ گئے ہیں۔ لتھو انیا کے دارالحکومت میں اتحاد کے 31 رکن ممالک کے اس دوروزہ اجلاس میں زیادہ تر یو کرین کی جنگ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے امور زیرِ بحث آئیں گے۔
اس سے پہلے صدر بائیڈن نے ترقی پذیر ملکوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے نجی سرمایہ کاری میں اضافے پر گفتگو کے لیے، ونڈسر کاسل میں برطانیہ کے شاہ چارلس سوم سے ملاقات کی جہاں ان کا روایتی استقبال کیا گیا۔
بائیڈن اور شاہ چارلس کی ملاقات میں مالیاتی اور انسانی ہمدردی کے شعبوں سے منتخب عہدیداروں اور امریکہ میں ماحولیات کے لیے ایلچی جان کیری نے بھی شرکت کی ۔
74سالہ شاہ چارلس سوئم جن کی تاجپوشی مئی میں ہوئی ہے، پہلے ہی ماحولیات کو اپنی شاہی پالیسی کا حصہ بنا چکے ہیں اور جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ان کی طویل جدوجہد رہی ہے۔
صدر بائیڈن نے بھی اپنے دورِ صدارت میں جن چار مسائل سے نمٹنے کا عہد کیا ہے ان میں سے ایک ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کے لیے انہوں نے گزشتہ برس وسیع قانونی پیکیج پر دستخط کیے تھے جس میں ماحولیات سے متعلق 375 ارب ڈالر کی مراعات شامل ہیں۔
صدر بائیڈن شاہ چارلس کی تاجپوشی میں شریک نہیں ہو پائے تھے اور صرف خاتونِ اول جل بائیڈن ان رسومات میں شریک ہوئی تھیں۔ تب بائیڈن نے فون پر شاہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی ان سے ملاقات کریں گے۔
بائیڈن سونک ملاقات
وائس آف امریکہ کی پیٹسی وڈا کسوارا کی رپورٹ کے مطابق شاہ چارلس سوم سے ملاقات کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے برطانیہ کے وزیرِ اعظم رشی سونک سے ملاقات کی اور دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔
10ڈاؤننگ سٹریٹ، لندن میں اس ملاقات میں صدر جو بائیڈن نے برطانوی وزیرِ اعظم سونک سے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط ہیں۔
صدر نے کہا، " بہت سے ایسے امور ہیں جن پر ہمیں بات کرنی ہے اور میرے خیال میں ہم ٹھیک ہیں اور مثبت راہ پر گامزن ہیں۔
وزیرِاعظم سونک نے کہا، " ہمارے لیے شاندار بات ہے کہ ہم نے ایک ماہ پہلے وائٹ ہاؤس میں ، اٹلانٹک ڈیکلیریشن' پر دستخطوں کے ساتھ جو بات چیت شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے۔"
سونک جون میں ہوئے اس معاہدے کا حوالہ دے رہے تھے جس میں جدید ٹیکنالوجیز، صاف توانائی اور اہم معدنیات میں تعاون پر اتفاق کیا گیا تھا تاکہ دنیا بھر میں چینی اثرو نفوذ کا مقابلہ کیا جائے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں کے مطابق دونوں لیڈروں کے درمیان چھ ماہ میں یہ چھٹی ملاقات ہے۔ تاہم اس دفعہ اس ملاقات پر امریکہ کے اس اعلان پر برطانیہ کے اختلاف کا سایہ رہا جو یوکرین کو کلسٹر ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں تھا۔
امریکہ نے کہا تھا کہ وہ یو کرین کو کلسٹر بم فراہم کرے گا حالانکہ برطانیہ سمیت دنیا کے 123 ممالک کلسٹر بموں کے استعمال پر پابندی کا معاہدہ کرچکے ہیں کیونکہ یہ بم بے دریغ ہلاکتوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہفتے کے روز وزیرِ اعظم سونک نے کہا تھا کہ برطانیہ، کلسٹر ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے معاہدے کا رکن ہونے کے باعث امریکہ کے اس اقدام کی حمایت نہیں کر سکتا۔ تاہم روس کے بلاجواز حملے کے خلاف یو کرین کی حمایت جاری رکھے گا اور انہوں نے کہا،" ایسا ہم یوکرین کو بھاری جنگی ٹینک اور جدید دور مار ہتھیار فراہم کرنے کے ذریعے کر رہے ہیں "۔
اتوار کو ائیر فورس ون پر سفر کے دوران وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا،" سونک نے کلسٹر ہتھیاروں کے معاہدے کے تحت اپنی ذمے داری نبھائی ہے "۔
انہوں نے کہا کہ جلد ہی صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم سونک یوکرین کے معاملے پر حکمت عملی کے لحاظ سے اتفاقِ رائے کے حامل ہوں گے اور اس تنازعے اور دیگر وسیع تر معاملات میں ، پہلے سے کہیں زیادہ متحد بھی۔
( اس رپورٹ کا کچھ مواد اے پی اور اے ایف پی سے بھی لیا گیا ہے)