امریکی صدر جو بائیڈن بدھ 28 اپریل کو وائٹ ہاوس میں اپنے اقتدار کے اولین ایک سو دن مکمل ہونے پر کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ رائے عامہ کے دو حالیہ جائزوں کے مطابق ان کی کارکردگی کوعمومی طور پر مثبت انداز سے دیکھا جارہا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹی کے اراکین اس بات کے خواہشمند ہیں کہ اس اہم خطاب میں بائیڈن کئی ایک معاملات پر بات کریں۔
ایسے میں جب امریکی صدر جو بائیڈن کو عہدہ صدارت سنبھالے 100 دن مکمل ہورہے ہیں، دو عدد حالیہ عوامی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت ان کی مجموعی کارکردگی کی معترف ہے۔ ان کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے مثبت اقدامات کو سراہا جا رہا ہے جب کہ میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کی یلغار سے نبردآزما ہونے کے بارے میں تاثرات منفی نوعیت کے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کی نئی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 52 فی صد بالغ امریکی آبادی کی مثبت رائے کے مقابلے میں 42 فی صد کی رائے منفی ہے ۔ اے بی سی کے نیوز پول میں بائیڈن کو 53 فی صد مثبت جب کہ 39 فی صد منفی ریٹنگ دی گئی ہے۔
دونوں عوامی جائزوں سے واضح منقسم رائے عامہ کا پتا چلتا ہے، جس کے تانے بانے 2020ء کے انتخابات سے ملتے ہیں ، جس میں بائیڈن نے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ چار برس کی میعاد صدارت کے لیے وائٹ ہاؤس تک پہنچے لیکن کئی ایک کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں میں ان کی کامیابی کی شرح بہت زیادہ نہیں تھی۔
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ 90 فی صد ڈیموکریٹس بائیڈن کی کارکردگی کی توثیق کرتے ہیں، جب کہ ری پبلکنز کے معاملے میں مقبولیت کی یہ شرح محض 13 فی صد ہے۔ ادھر این بی سی کے سروے میں یہ تناسب ڈیموکریٹس کی نظر سے 90 فی صد، انڈپنڈنٹس کے خیال میں 61 فی صد جب کہ ریپبلکنز کی نگاہ میں کارکردگی کی مقبولیت کی شرح محض 9 فی صد ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، کرونا وائرس کی وباسے نمٹنے کے ضمن میں بائیڈن کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے، ایسے میں جبکہ اب تک 226 ملین سے زیادہ امریکی آبادی کو ویکسین لگ چکی ہیں اور 93 ملین سے زائد افراد کو ویکیسن دینے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کے پول کے مطابق 64 بالغ آبادی، جس میں ایک تہائی ری پبلیکنز شامل ہیں، کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کی بائیڈن کی حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں۔ این بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبولیت کی یہ شرح 69 فی صد ہے۔
لیکن، ان سروے رپورٹس کے مطابق، چند دیگر معاملات سے متعلق صدر بائیڈن کی کارکردگی اتنی مضبوط نہیں سمجھی گئی، جتنی کرونا وائرس سے نمٹنے کے متعلق ہے۔
پوسٹ اور این بی سی کی جائزہ رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ معیشت کے فروغ کے حوالے سے امریکہ کے 46ویں صدر کی کارکردگی کی مقبولیت کی شرح 52 فی صد ہے، جب کہ 53 فی صد امریکی میکسیکو اور وسطی امریکہ کے ہزاروں تارکین وطن کی یلغار سے نمٹنے کے لئے ان کی پالیسی کی تائید نہیں کرتے۔ یہ پناہ گزیں امریکہ کی سرحد پار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے،صدر بائیڈن نے والدین کے بغیر سرحد پر آنے والے بچوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کی بجائے امریکہ میں رہنے کو ترجیح دی۔
این بی سی کی جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ وباسے نمٹنے کے علاوہ لوگ معیشت کی بہتری کے حوالے سے 52 فی صد، جب کہ ملک کو متحد کرنے اور نسلی تعلقات کے فروغ کے لیے کئے گئے اقدامات کے معاملے پر 49 فی صد مثبت رائے رکھتے ہیں۔ چین سے تعلقات کے معاملے پر ان کی پالیسی کو 35 فی صد مقبولیت، اسلحے کو محدود کرنے سے متعلق پالیسی کو 34 فی صد جب کہ سرحد کی سیکیورٹی اور ترکِ وطن کے معاملوں پر 33 فی صد تائید حاصل ہے۔
کرونا وائرس ریلیف پیکیج کے لیے 1.9 ٹرلین ڈالر مختص کرنے کی اہم قانون سازی کے معاملے پر انہیں صرف ڈیموکریٹس ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ ری پبلیکنز اس کے مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم، واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ امریکی عوام کی بڑی تعداد بائیڈن کے منصوبےکے حق میں ہے۔ اس ضمن میں سروے کیے گئے افراد میں سے 65 فی صد اس کی حمایت جب کہ 31 فی صد اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
تاہم، سیاسی طور پر منقسم امریکہ میں ری پبلیکن قانون سازوں نے بائیڈن مخالف سخت بیانات کا آغاز کر دیا ہے۔
ریاست جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے سابق صدر ٹرمپ کے حامی سینیٹر لِنسی گراہم نے امریکی ٹیلی ویژن چینل 'فاکس نیوز سنڈے' شو میں بتایا کہ ''میں ان 43 فی صد لوگوں میں شامل ہوں (جو بائیڈن کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔) بائیڈن کی خارجہ پالیسی تباہ کن ہے۔ سرحد پر افراتفری مچی ہوئی ہے، ایرانیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، وہ ایرانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں جبکہ ایران نے اپنی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ افغانستان کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ روس اور چین نے اپنے تیور دکھانا شروع کر دیے ہیں''۔
لنسی گراہم نے کہا کہ ''اس لیے، مجھے بہت پریشانی لاحق ہے۔ میرے خیال میں وہ عدم استحکام پیدا کرنے والے صدرثابت ہوئے ہیں۔ معاشی اعتبار سے وہ بہتری کی پالیسوں کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں، وہ ٹیکس کو بے انتہا بڑھانے کے خواہاں ہیں، جب کہ بنیادی طور پر امریکیوں کو کاروبار سے بے دخل کرنے سے متعلق قانون سازی کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں''۔
اب صدر بائیڈن امریکی انفرا سٹرکچر کے 2 ٹرلین ڈالر سے زائد مالیت کے منصوبے سےمتعلق قانون سازی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
لیکن، ری پبلکن قانون ساز ہیلتھ کیئر کے لیے بھاری رقوم مختص کرنے کے معاملے پر صدر کی پالیسی سے خائف ہیں، جس میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے علاوہ کئی معاملات کو شامل کیا گیا ہے۔ ری پبلیکنز بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امیر افراد اور ان کے کاروبار پر ٹیکس میں اضافے کے مخالف ہیں۔
صدر بائیڈن ری پبلیکن قانون سازوں کے ساتھ سمجھوتے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان ابھی خاصا فاصلہ ہے۔