امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے وفاقی سطح پر ہم جنس اور بین النسلی شادیوں کے تحفظ کے لیے تاریخی قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔
اس موقع پر جو بائیڈن نے 'شادی کے احترام' نامی ایکٹ پر دستخط کرنے سے قبل کہا کہ امریکہ نے مساوات، آزادی اور انصاف کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ قدم صرف کچھ لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر ایک کے لیے ہے۔
جو بائیڈن نے اس قانون کو ایک ایسی قوم بنانے کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے، جہاں شائستگی، وقار ، محبت کی پہچان، عزت اور تحفظ ہو۔
منگل کو اس بل کی منظوری کے بعد یہ قانون 1996 کے 'ڈیفنس آف میرج ایکٹ' کو منسوخ کرتا ہے جو وفاقی قانون کے تحت شادی کو مرد اور عورت کے درمیان یونین قرار دیتا تھا۔
نیا قانون ریاستوں کو دوسری ریاستوں میں کی جانے والی ہم جنس اور نسلی شادیوں کو تسلیم کرنے کا بھی تقاضہ کرے گا حالاں کہ یہ ریاستوں کو ان شادیوں پر پابندی کے قوانین کو منظور کرنے سے نہیں روکتا۔
وائٹ ہاوس میں اس قانون پر صدر کے دستخط کی تقریب کے موقع پر امریکہ کے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ لاکھوں امریکیوں کے لیے اس قانون کے اثرات ضروری اور بالکل بنیادی ہیں۔
"یہ مساوات کو یقینی بناتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم جنس اور نسلی جوڑے ان تمام قانونی تحفظات اور مالی فوائد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو شادی کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں۔"
امریکہ میں سفید اور سیاہ فام افراد یا دو علیحدہ نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کی (بین النسلی) شادی کی قانونی حیثیت تسلیم شدہ ہے۔ 1967 میں سپریم کورٹ نے ’لونگ بنام ورجینیا کیس‘ میں 16 ریاستوں میں بین النسلی شادیوں کو روکنے سے متعلق قوانین کو منسوخ کردیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے ’رو بنا ویڈ کیس‘ کو منسوخ کرنے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ تولیدی حقوق سے متعلق ریاستوں کو قانون سازی کا اختیار ملنے کے بعد ریاستیں شادی سے متعلق قوانین میں تبدیلی کرسکتی ہیں اور قدامت پرستوں کی اکثریت رکھنے والی سپریم کورٹ ان حقوق کو مزید محدود کرسکتی ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے 2015 کے 'اوبرگفیل بمقابلہ ہوجز' کے نام سے کیس کے فیصلے میں ہم جنس شادی کو ملک بھر میں قانونی قرار دیا تھا۔
اس سال جون میں عدالت کے 'ڈوبس بمقابلہ جیکسن' کیس کے فیصلے نے وفاقی سطح پر اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا ہے جس سے دیگر حقوق کے لیے وفاقی تحفظات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
ڈوبس بمقابلہ جیکسن کیس میں اپنی متفقہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس کلیرنس تھامس نے لکھا کہ عدالت کو پرائیویسی یعنی رازداری کے حق پر مبنی شادی کرنے کے حق یا پیدائش پر قابو پانے کے حق کی ضمانت جیسے دیگر فیصلوں پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں انہوں نے یہ دلیل دی تھی کہ امریکہ کا آئین ان حقوق کی ضمانت نہیں دیتا۔
جسٹس تھامس کی رائے نے یہ تشویش پیدا کی کہ عدالت آئندہ ہم جنس جوڑوں کے شادی کے حق کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرے گی۔
اس امکان کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹ کے دونوں جماعتو ں سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے 'شادی کے احترام' نامی ایکٹ پر کام کیا۔
ری پبلکن سینیٹر مائیک لی نے ایوان میں بحث کے دوران کہا تھا کہ یہ قانون سازی غیر ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ محض ایک متفقہ رائے میں سے ایک سطر ایسی قانون سازی کا سبب نہیں بنتی جس سے مذہبی آزادی کو خطرہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستیں ہم جنس شادی کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر رہی ہیں اور نہ ہی ان کے تسلیم ہونے کے خاتمے کا خطرہ درپیش ہے۔
امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے اس ایکٹ کو 169 کے مقابلے میں 258 ووٹوں سے رواں ماہ منظور کیا تھا جس میں ری پبلکنز کی نمایاں حمایت بھی شامل تھی۔
مذہبی آزادی کو آگے بڑھانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'لبرٹی کونسل' نے بیان میں کہا کہ شادی کا احترام ایکٹ غیر آئینی تھا اور اس نے مذہبی افراد یا تنظیموں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا تھا۔
مزید یہ کہ بل میں بعد میں کی جانے والی ترامیم نے ان مذہبی تنظیموں کو جنہیں آئینی اور قانونی طور تحفظ حاصل تھا، اس میں سے نکال دیا گیا تھا۔
ری پبلکن سینیٹر سوسن کولنز نے، جو کہ اس قانون سازی کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھیں، سینیٹ میں بحث کے دوران کہا کہ اس کے حوالے سے مذہبی آزادی کے بارے میں خدشات ایک غلط دلیل ہیں۔
سینیٹر سوسن نے کہا تھا کہ یہ قانون سازی وفاقی قانون میں واضح کر دے گی کہ غیر منافع بخش مذہبی تنظیموں اور مذہبی تعلیمی اداروں کو ان کے مذہبی عقائد کے خلاف شادیوں کی درخواست یا جشن میں شرکت یا حمایت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
رواں سال مئی میں کیے گئے ایک گیلپ پول کے مطابق 71 فی صد امریکی ہم جنس شادی کی حمایت کرتے ہیں۔
جب پہلی بار اس قسم کا رائے عامہ کا جائزہ 1996 میں کیا گیا تھا تو صرف 27 فی صد لوگوں نے ایسی شادیوں کی حمایت کی تھی۔