تہران کی عدالتیں ستمبر میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد مختلف الزامات پر سزائیں سنا کر 400 افراد کو جیل بھیج چکی ہیں۔ ایران کی عدلیہ نے کہا ہے کہ مجرموں کو 10 سال تک قید کی سزا ئیں دی گئی ہیں۔
22 سالہ ایرانی کرد خاتون کو ملک میں حکومت کے مقرر کردہ اخلاقی ضابطوں پر عمل درآمد کرانے والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران آ رہی تھی۔ پولیس کا الزام تھا کہ اس نے خواتین کے لیے مقررہ لباس کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے سر کے بالوں کو ڈھانپنے میں ناکام رہی ہے۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے تین مہینے گزر جانے کے باوجود ایران مسلسل مظاہروں کی زد میں ہے۔ جب کہ حکومت نے طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے مظاہروں کو دبانے کی کوشش کی ہے اور مہسا کی تدفین کی رسومات میں شرکت سے بھی لوگوں کو روک دیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ ایران کی سیکیورٹی فورسز اب تک 18000 سے زیادہ افراد کو حراست میں لے چکی ہیں اور ان میں سے دو ہزار سے زائد پر مقدمے چلائے جا رہے ہیں جب کہ کم و بیش 12 افراد کو موت کی سزائیں بھی سنائی جا چکی ہے جن میں سے دو کی پھانسیوں پر عمل درآمد ہو چکا ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔
تہران کی عدلیہ کے سربراہ علی الغاسی مہر نے کہا ہے کہ صوبہ تہران میں فسادیوں کے مقدمات کی سماعتوں میں 160 افراد کو پانچ سے 10 سال قید، 80 افراد کو دو سے پانچ سال اور 160 افراد کو دو سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔
علی الحاسی مہر کا یہ بیان ایرانی عدلیہ کی آن لائن ویب سائٹ میزان پر شائع کیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ نے گزشتہ ہفتے بدامنی کے سلسلے میں جن دو افراد کو پھانسی دی تھی ان کے نام ماجدرضا رہنورد اور محسن شکاری تھے۔ ان میں سے شکاری کو گزشتہ جمعرات اور رہنوارد کو پیر کے روز پھانسی دی گئی۔
راہنورد کو ایران کے شہر مشہد میں کھلے عام پھانسی دی گئی جس کے لیے اسے ایک کرین پر رسہ باندھ کر لٹکایا گیا۔
ایران کا کہنا ہے کہ انہیں ملک کے اسلامی شرعی قانون کے تحت محاربہ کے الزام میں سزا دی گئی ہے۔ جس کا مطلب ہے خدا کے خلاف جنگ یا دشمنی۔ یہ ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔
دو پھانسیوں سے قبل، ایران کی عدلیہ نے کہا تھا کہ اس نے مظاہروں کے دوران مختلف جرائم کے ارتکاب پر 11 افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک درجن دیگر افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
16 ستمبر سے جب مظاہرے شروع ہوئے، ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ایران کے اعلیٰ سیکورٹی ادارے نے 3 دسمبر کو کہا کہ بدامنی میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ انسانی حقوق کے گروپس کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 400 سے زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔