امریکی صدر جو بائیڈن آج کانگرس سے اپنا پہلا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کریں گے۔ اس سالانہ خطاب میں توجہ ملک کو درپیش داخلی چینلجز پر مرکوز ہوتی ہے مگر آج کی تقریر ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب روس یوکرین پر حملہ ایک بڑا عالمی مسئلہ بن گیا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی پوٹن حکومت پر کڑی پابندیاں لاگو کر چکے ہیں۔
وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق صدر بائیڈن امریکی کانگرس اور قوم سے اپنے پہلے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں یہ باور کرانے کی کوشش کرنے والے ہیں کہ امریکہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر روسی صدر کو ان کی جارحیت کا سخت جواب دے رہا ہے۔ صدر کہیں گے کہ "ہم نے تاریخ سے یہی سبق سیکھا ہے کہ جب ڈکٹیٹر اپنی جارحیت کی قیمت ادا نہیں کرتے تو وہ مزید افراتفری پھیلاتے ہیں۔ وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔اور امریکیوں کے لیے اس کی قیمت اور اس کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔"
روس پر کڑی پابندیاں لاگو کرتے ہوئےبائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے دو بڑے روسی بینکوں اور ان سے منسلک دیگر بینکوں پر پابندیاں لاگو کر دی ہیں جبکہ کامرس کی وزارت نے روسی ٹیکنالوجی کی درآمدات کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ روسی صدر پوٹن اب ان چند عالمی رہنماوں میں سے ہیں جب پر امریکہ پابندیاں لاگو کر چکا ہے۔اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بعض دیگر امیر اور اہم روسی شخصیات پر بھی پابندیاں لاگو کر دی گئی ہیں۔امریکی شہریوں کو روس چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ روس کے اہم اتحادی ملک بیلاروس میں بھی امریکی سفارتخانے نے کام بند کر دیا ہے۔ نیٹو کی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے صدر نے گزشتہ ہفتے مزید سات ہزار فوجی یورپ بھیجنے کا اعلان کیا۔ ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار کے مطابق ان اضافی دستوں میں سے پچیس فیصد یورپ پہنچ چکے ہیں۔
تاہم جہاں بائیڈن اتنظامیہ ایک بڑے عالمی تنازعے سے نبرد آزما ہے وہیں صدر بائیڈن کو ملکی سطح پر بھی کچھ بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سرفہرست مہنگائی ہے جو چالیس سال کی بلند ترین کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف ہر ماہ لوگوں کی بڑی تعداد ملامتوں سے استعفیٰ دے رہی ہے تاکہ اپنے لیے بہتر روزگار کا انتخاب کر سکے اور دوسری طرف کاروبار کرنے والوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ اجرت میں اضافے اور بہتر مراعات کی پیشکش کر رہے ہیں۔ کرونا وبا کے باعث عالمی سپلائی چین بری طرح متاثر ہونے سے امریکہ میں لوگوں کو ٹوائلٹ پیپر سے لے کر گاڑیوں کی دستیابی میں کمی کا سامنا رہا ہے اور اس سال بھی مشکلات متوقع ہیں۔
وائٹ ہاوس کے مطابق مہنگائی سے لڑنے کے لیے صدر کا منصوبہ اجرت کم کرنا نہیں بلکہ اشیا کی تیاری اور دستیابی پر آنے والی لاگت کو کم کرنا ہے۔ اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں اس مسئلے پر مزید بات کرتے ہوئے صدر تجویز کریں گے کہ، "زیادہ گاڑیاں اور سیمی کنڈکٹرز امریکہ میں بنائیں۔ زیادہ انفراسٹرکچر اور جدت امریکہ میں لائیں۔زیادہ پیداوار اور اس کی تیز تر ترسیل امریکہ میں ہو۔ایسی ملازمتوں میں اضافہ ہو جن سے لوگ امریکہ میں بہتر روزگار کما سکیں اور غیر ملکی سپلائی چین پر انحصار کرنے کی بجائے، آیے خود امریکہ میں بنائیں۔‘
صدر کے ترقیاتی ایجنڈا کے ایک اہم حصے کو ان کی اپنی جماعت کی مخالفت کا سامنا ہے۔ بیس کھرب ڈالر کا ’بلڈ بیک بیٹر‘ ایکٹ کئی ماہ کی بحث کے بعد گزشتہ سال کانگرس کے ایوان زیریں میں منظور ہوا۔ اس کے تحت صحت، تعلیم، کلایمیٹ چینج سے منسلک پروگراموں پر بھاری رقم خرچ کی جائے گی۔ لیکن اس ایکٹ کو سینیٹ میں رکاوٹوں کا سامنا ہے جہاں ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن پارٹی کے ارکان کی تعداد برابر ہے۔ ریپبلیکن سیاست دان اس بل کو منظور کرنے کے حق میں نہیں اور کم از کم ایک ڈیموکریٹک رکن بھی اس کے خلاف ہے۔ تاہم صدر کو گزشتہ سال اگست میں ایک بڑی جیت ملی جب امریکہ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے دس کھرب ڈالر سے زیادہ کا ایک بل اتفاق رائے سے منظور ہو گیا۔
حزب اختلاف کا رد عمل
روایتی طور پر صدر کے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب کے بعد حزب اختلاف رد عمل دیتی ہے۔ اس کے لیے ریپبلیکن پارٹی نے ریاست آئیووا کی گورنر کم رینلڈز کا انتخاب کیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ صدر کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی۔ اور افغانستان سے انخلا کو امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ "دھوکا‘ قرار دیں گی اور ایک ایسا فیصلہ جس سے"امریکہ کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی"۔ تاہم یوکرین کے معاملے پر توقع ہے کہ وہ بھی تمام امریکیوں کو یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دیں گی۔
مہنگائی بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صدر بائیڈن کو حزب اختلاف کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اپنی جوابی تقریر میں گورنر کم رینلڈز یہ موقف اپنا سکتی ہیں کہ صدر بائیڈن مہنگائی کو صرف امیروں کا مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ دیکھ چکی ہیں کہ، " امریکی والدین اپنی تنخواہ سے کم سے کم خرید پا رہے ہیں" اور "صدر کے فیصلوں کی تکلیف ایک پوری نئی نسل برداشت کر رہی ہے۔