رسائی کے لنکس

بائیڈن شی ورچوئل ملاقات: 'حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کی کوشش تھی'


صدر بائیڈن اور چین کے سربراہ شی جن پنگ کے درمیان ورچوئل ملاقات۔ 16 نومبر دو ہزار اکیس
صدر بائیڈن اور چین کے سربراہ شی جن پنگ کے درمیان ورچوئل ملاقات۔ 16 نومبر دو ہزار اکیس

صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ساڑھے تین گھنٹے طویل ورچوئل ملاقات پر مبصرین کی جانب سے خیال آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ دونوں ہی کے درمیان کافی کشیدگی ہے اور اس بات کی خدشات پائے جاتے تھے کہ کہیں حالات قابو سے باہر ہو کر کوئی خطرناک رخ نہ اختیار کر لیں، خاص طور پر تائیوان کے مسئلے پر بات بہت آگے نہ بڑھ جائے۔

ان حالات میں امریکہ اور چین کے سربراہان کے درمیان ورچوئل ملاقات بہت اہم ہو گئی تھی۔ ہر چند کہ حالات کے پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ اس کے نتیجے میں کوئی بڑی پیش رفت ہو گی، لیکن یہ ملاقات اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی دونوں سربراہاں کی کوشش اپنی جگہ بہت اہم ہے۔

نیویارک سٹی یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ کار جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے دو نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان میں اوّل تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں کمی آئے گی جس سے ماحول میں ٹھہراؤ پیدا ہو گیا ہے۔

اور دوسرے یہ کہ اب تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین جیسے امور پر کسی ٹکراؤ کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ کیونکہ، بقول تجزیہ کار، تقریباً تمام ہی امور پر اختلافات تو بدستور باقی ہیں، لیکن اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ رابطے رکھے جائیں اور بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے۔

جہانگیر خٹک نے کہا کہ تائیوان کا مسئلہ ہو یا چین میں حقوق انسانی، خاص طور پر وہاں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا معاملہ ہو؛ چین کی امریکہ کے ساتھ غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں کا معاملہ ہو یا جنوبی بحیرہ چین میں جہاز رانی کا تنازع ہو دونوں کے موقف بہت مختلف ہیں۔ لیکن، اس بات پر اتفاق کرنا کہ مسابقت کو تصادم میں نہیں بدلنے دیا جائے گا، جو امریکہ کی موجودہ حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے، بجائے خود بہت اہم پیش رفت ہے۔

واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ اس ورچوئل میٹنگ کا بنیادی مقصد یہ ہی تھا کہ دونوں فریق تائیوان، جنوبی بحیرہ چین میں آزادانہ جہاز رانی، چین میں حقوق انسانی کے مسائل اور چین کی غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں کے بارے میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھیں اور اس کشیدگی کو اتنا آگے بڑھنے سے روکیں کہ وہ جنگ کی صورت اختیار نہ کر لے۔

انہوں نے کہا کہ اب اگر ہم دیکھیں کہ کون سے مسئلے پر کیا پیش رفت ہوئی تو پتہ چلے گا کہ خواہ وہ سنکیانگ میں یغور مسلمانوں اور چین میں دوسری اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ ہو یا تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کا مسئلہ ہو، ان کے حل کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس کی توقع بھی نہیں کی جا رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں بڑی طاقتوں کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ مسائل انتہائی اہم اور حساس ہیں اور ان پر دونوں ملکوں کے اپنے اپنے سخت موقف ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی غلط فیصلہ کیا گیا تو پھر صرف ان ہی کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے اس کے نتائج خوشگوار نہیں ہوں گے۔ ملاقات کا مقصد یہ ہی تھا کہ ایک دوسرے کو سمجھا جائے۔ اس وقت مقصد حل تلاش کرنا نہیں تھا، کیونکہ حل تلاش کرنے کے لئے بہت کام کرنا ہو گا۔ اور دونوں ملکوں کو بڑے سمجھوتے کرنے پڑیں گے جس کے لئے دونوں ابھی تیار نہیں ہیں۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں، مسائل کے حل کے لئے ابھی اقدامات کا آغاز ہونا باقی ہے۔

XS
SM
MD
LG