امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی صدارت سنبھالنے کے بعد ان کی پہلی بار چین کے صدر شی جن پنگ سے آن لائن ملاقات ہوئی ہے۔ اس سے قبل دونوں ملکوں کے صدور رواں برس فروری اور پھر ستمبر میں فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے چین کے ہم منصب پر واضح کیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر مفادات اور روایت کے لیے ہمیشہ کھڑا رہے گا۔
جو بائیڈن نے ملاقات میں تنازعات سے بچنے پر بھی زور دیا اور ماحولیات سمیت دیگر عوامل پر مشترکہ طور پر کام کرنے پر زور دیا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ 21 ویں صدی میں آگے بڑھنے کے لیے ایسے ضابطے ممکن بنائے جائیں جو بین الاقوامی آزاد نظام، قابلِ رسائی اور مساوات پر مبنی ہو۔
وائٹ ہاؤس نے یہ بیان امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کی تین گھنٹوں سے زائد جاری رہنے والی ملاقات کے بعد جاری کیا۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق امریکہ بیجنگ کی ایک چین پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تائیوان کی آزادی کا بھی مخالف ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ موجودہ صورتِ حال کی یک طرفہ طور پر تبدیلی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور آبنائے تائیوان میں امن یا توازن کو خراب کرنے کا بھی مخالف ہے۔
بائیڈن بظاہر امریکہ کی اس پالیسی کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کے تحت واشنگٹن سرکاری طور پر بیجنگ اور تائیوان ریلیشن ایکٹ کو تسلیم کرتا ہے۔
یہ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کا تائیوان کے بجائے صرف چین سے سرکاری روابط رکھنے کا انحصار اسی توقع پر ہے کہ تائیوان کے مستقبل کا تعین پرامن طریقے سے کیا جائے گا۔
ایکٹ کے تحت امریکہ، تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔ البتہ امریکہ اس معاملے پر چین کی 'ون چائنا' پالیسی کو تسلیم کرتا ہے جس کے تحت چین کا یہ مؤقف ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے۔
آن لائن ملاقات میں چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی دونوں ممالک میں درمیان کئی معاملات کو تسلیم کیا۔
اس ملاقات کے حوالے سے جیسے پہلے کی توقع کی جا رہی تھی شی جن پنگ نے اپنے ملک اور قوم کی خود مختاری کی حفاظت کرنے پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ داخلی معاملات سے بہتر انداز میں نمٹنا چاہیے اور اسی طرح بین الاقوامی معاملات میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔
انہوں نے بیجنگ اور واشنگٹن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی امن اور ترقی کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امریکہ اور چین کے لوگوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھی خواہش ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں شمالی کوریا، افغانستان اور ایران سمیت کئی علاقائی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ چین کو ایک اسٹریٹجک مدِ مقابل کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب چین فوجی طور پر طاقت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں معاشی طور پر بھی غلبہ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان ایک دہائی قبل اُس وقت ملاقات ہوئی تھی جب بائیڈن امریکہ کے نائب صدر اور شی چین کے نائب صدر تھے۔
دو انتہائی مختلف شخصیتوں کے مالک ان رہنماؤں کی جب آن لائن ملاقات ہوئی تو پہلے ہی سے امید کی جا رہی تھی کہ کئی امور پر ان کا تفصیلی تبادلۂ خیال ہو گا جن میں سائبر سیکیورٹی، تجارت، جوہری عدم پھیلاؤ اور تائیوان کا معاملہ زیرِ غور آئے گا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں اس رابطے کو سربراہی اجلاس کہنے کے بجائے ایک نشست قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان رہنماؤں کی اس تین گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی آن لائن ملاقات میں ٹھوس اقدامات کے حوالے پیش رفت کا امکان کم ہی ہے۔
مبصرین کے مطابق دونوں رہنما خود کو زیادہ مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے اسی لیے دونوں ممالک میں موجودہ صورتِ حال برقرار رہ سکتی ہے۔
جو بائیڈن کی حکمتِ عملی
تاریخ دان جیرمی سوری کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے توقعات تو کم ہی ہیں البتہ یہ دونوں رہنماؤں کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ جو بائیڈن اپنے پیش رو کے مقابلے میں واضح حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس میں پروفیسر جرمی سوری کے مطابق جوبائیڈن اور شی جن پنگ میں ہونے والی یہ آن لائن ملاقات بالکل اسی طرز کا رابطہ تھا جس طرح صدر نکسن نے 1970 کی دہائی میں چین کا دورہ کیا تھا۔ اور جس طرح ستر اور اسی کی دہائی میں صدر کارٹر، ریگن اور صدر بش نے چین سے تعلقات کے لیے اقدامات کیے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات اسی طرح اہم ہے جس طرح 1989 میں تیان من واقعات کے بعد ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
ان کے مطابق ان ملاقاتوں میں امریکہ کے صدور دو اہم کام کرتے رہے ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہوتا تھا کہ یہ اندازہ لگایا جاتا تھا کہ چین مستقبل میں کس جانب جا رہا ہے اور کیا چین کی مستقبل کی پیش قدمی کسی اعلیٰ سمت میں ہے؟
ولسن سینٹر کے چین اور امریکہ سے متعلق کیسنجر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ ڈلے کے مطابق دونوں ممالک کو اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریق کسی بھی تنازع سے بچنے کی کوشش میں ہیں۔ البتہ کوئی بھی فریق اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے یا اپنے مقاصد کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں کچھ ایسے مقاصد بھی ہیں جو کہ ہم آہنگ نہیں ہیں جن میں مغربی بحر الکاہل اہم ترین ہے۔