|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن بدھ کو نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں ان پر زور دیں گے کہ وہ اپنے دور صدارت میں یوکرین کو تنہا نہ چھوڑیں۔
قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں بتایا کہ بائیڈن اس ملاقات میں ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے اہم ترین داخلی اور خارجہ پالیسی کے امور پر بات کریں گے۔
ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ، جنہوں نے پانچ نومبر کے انتخابات میں نائب صدر کاملا ہیرس کی شکست دی تھی، 20 جنوری کو اپنی صدارتی مدت کا آغاز کریں گے۔ بائیڈن نے ٹرمپ کو امریکی صدر کے اوول آفس کے نام سے جانے جانے والے دفتر میں ملاقات کے لیے مدعو کیا ہے۔
نشریاتی ادارے سی بی ایس کے پروگرام "فیس دی نیشن" میں بات کرتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے کہا کہ ملاقات کے دوران بائیڈن اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کریں گے۔
اس کے علاوہ بائیڈن ٹرمپ سے یورپ، ایشیا اور مشرق وسطی میں ہونے والے حالات و واقعات پر بات کریں گے۔
سلیوان کے بقول، بائیڈن کے لیے یہ ملاقات ایک موقع ہو گی کہ وہ منتخب صدر ٹرمپ پر یہ واضح کر سکیں کہ وہ حالات کو کیسے دیکھتے ہیں، حالات کیسے ہیں اور یہ کہ وہ ٹرمپ سے یہ جاننے پر بات کریں گے کہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا سوچ رکھتے ہیں۔
جبکہ سلیوان نے ملاقات میں زیر بحث آنے والے امور کا خصوصی طور پر ذکر نہیں کیا لیکن خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ یوکرین کی روس کے ساتھ جاری جنگ گفتگو کا لازمی حصہ ہو گی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ کو فوری طور پر بند کرا دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک یہ بیان نہیں کیا کہ وہ ایسا کس طرح ممکن کریں گے۔
قومی سلامتی کے مشیر نے کہا، "اگلے 70 دنوں میں صدر بائیڈن کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ کانگریس اور آنے والی حکومت کے پاس اپنا یہ کیس لے جائیں کہ امریکہ کو یوکرین کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے اور یہ کہ ایسا کرنے کا مطلب یورپ میں مزید عدم استحکام ہو گا۔"
تاہم، یہ استفسار کرنے پر کہ کیا بائیڈن کانگریس سے یوکرین کے لیے مزید فنڈنگ کے بارے میں قانون سازی کرنے کی درخواست کریں گے، سلیوان نے کچھ یوں وضاحت کی:
"میں یہاں کسی خاص قانون سازی کے بارے میں تجویز پیش کرنے کی بات کرنے نہیں آیا۔ صدر بائیڈن یہ مدعا پیش کریں گے کہ ہمیں ان کی مدت صدارت کے بعد بھی یوکرین کے لیے ذرائع کی ضرورت ہو گی۔"
یوکرین کے لیے فنڈنگ
واشنگٹن نے روس کے فروری 2022 کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یوکرین کو دسیوں اربوں ڈالر کی عسکری اور اقتصادی امداد فراہم کی ہے۔
ٹرمپ نے بارہا اس امداد پر تنقید کی ہے اور ری پبلیکن قانون سازوں کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کی ہے۔
سلیوان کے تبصرے کے دن یعنی اتوار کو یوکرین نے جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے حملے میں روس کے دارالحکومت ماسکو پر 34 ڈرون کے ساتھ حملے کیے۔
ٹرمپ نے گزشتہ سال اصرار کیا تھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کبھی بھی یوکرین پر حملہ نہ کرتے۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ امن معاہدے کے حصول کے لیے یوکرین کو کچھ علاقے سے دستربردار ہونا پڑے گا۔
یوکرین کے لوگ اس خیال کو مسترد کرتے ہیں جب کہ صدر بائیڈن نے کبھی بھی ایسی تجویز پیش نہیں کی۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو کہا تھا کہ وہ منتخب صدر ٹرمپ کے یوکرین جنگ کے فوری خاتمے کی تفاصیل سے آگاہ نہیں ہیں اور وہ اس بات پر قائل ہے کہ جنگ کے فوری خاتمے کا مطلب یوکرین کے لیے بڑی رعایتیں ہو گا۔
امریکی حکومت کے احتساب کے دفتر کے مطابق بائیڈن کے دور میں کانگریس نے یوکرین کے لیے 174 ارب ڈالرکی منظوری دی۔
رائٹرز کے مطابق ٹرمپ کے دور صدارت میں یوکرین کے لیے امداد میں کمی آ ئے گی جب کہ ری پبلیکنز 52 سیٹوں کے ساتھ ایوان بالا یعنی سینیٹ کا کنٹرول سنمبھالیں گے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں اکثریت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ تحقیقی ادارے ایڈیسن ریسرچ کے مطابق اب تک ری پبلینز نے 213 سیٹیں جیت لی ہیں۔ یہ تعداد ایوان کا کنٹرول حاصل کرنے کے 218 کے ہدف سے تھوڑا ہی کم ہے۔
ری پبلیکنز کے دونوں ایوانوں کے کنٹرول سنبھالنے کی صورت میں کانگریس میں ٹرمپ کے ایجنڈے کی منظوری آسان تر ہو گی۔
ٹرمپ کے اتحادی ری پبلیکن سینیٹر بل ہیگرٹی امریکہ کے اگلے وزیر خارجہ بننے کے بڑے امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ نشریاتی ادارے سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے یوکرین کے لیے امریکی امداد پر تنقید کی۔
"امریکی عوام چاہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ ہم اپنے فنڈز اور ذرائع کسی دوسری قوم کی خودمختاری کے تحفظ پر خرچ کریں، ان کی اپنی خود مختاری یہاں امریکہ میں محفوظ ہو۔"
(ٓاس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم