|
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نویں سیزن میں جہاں ٹیموں کی نظریں پلے آف مرحلے پر ہیں وہیں بلے باز اور بالرز حنیف محمد اور فضل محمود کیپس حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز کو حنیف محمد کیپ دی جائے گی جس کے اس وقت سب سے بڑے دعویدار پشاور زلمی کے کپتان بابر اعظم ہیں جنہوں نے آٹھ میچوں میں 63.8 کی اوسط سے 447 رنز بنائے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وین ڈر ڈوسن بھی اس دوڑ میں شامل تھے لیکن انہیں ڈومیسٹک سیزن کے لیے طلب کرلیا گیا ہے۔ یوں لاہور قلندرز کی نمائندگی کرنے والے بلے باز 364 رنز میں مزید اضافہ نہیں کرسکیں گے۔
ادھر فضل محمود کیپ کے اس وقت حق دار تو 18 وکٹوں کے ساتھ ملتان سلطانز کے اسامہ میر ہیں۔ لیکن انہی کے ساتھی محمد علی 14، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے عقیل حسین اور کراچی کنگز کے حسن علی 13، 13 وکٹوں کے ساتھ زیادہ دور نہیں۔
لیکن کھلاڑیوں کی ایک فہرست ایسی بھی ہے جو ایونٹ کے دوران اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔
اس میں جہاں ایک سابق کپتان بھی ہیں تو دو حالیہ کپتان بھی شامل ہیں جو گزشتہ پی ایس ایل ایڈیشن میں کامیاب رہے۔ لیکن اس بار ان کی کارکردگی قیادت کی وجہ سے متاثر ہوئی۔
آئیے ایسے ہی کھلاڑیوں پرنظر ڈالتے ہیں جن کی پی ایس ایل میں مایوس کن پرفارمنس نے ٹیم کی کارکردگی کو تو متاثر کیا ہی، ساتھ ہی ساتھ ان کے مداح بھی ان کی کارکردگی سے محظوظ نہ ہو سکے۔
سرفراز احمد
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد کے لیے یہ پی ایس ایل ایڈیشن اچھا ثابت نہیں ہوا۔
ایونٹ کے آغاز سے قبل وہ مسلسل آٹھ سیزنز میں ایک ہی فرنچائز ٹیم کی قیادت کرنے والے واحد کھلاڑی تھے۔ لیکن اس بار کوئٹہ کی کپتانی ان سے لے کر رائلی روسو کو دے دی گئی۔
گو کہ سرفراز احمد کو بطور وکٹ کیپر فائنل الیون میں منتخب کیا گیا۔ لیکن نہ تو وہ وکٹ کیپنگ میں کوئی نمایاں کارکردگی دکھا سکے نہ ہی بیٹنگ میں وہ زیادہ اسکور کر سکے ہیں۔
ایونٹ کے دوران وہ سر پر فیلڈر کی گیند لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔ لیکن پھر بھی وہ چھ میچز میں سات شکاروں کے ساتھ ٹاپ وکٹ کیپر بنے۔ البتہ پانچ اننگز میں 22 رنز ان کے آؤٹ آف فارم ہونے کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔
اسی کارکردگی کی وجہ سے ان کی جگہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے آخری میچ میں انگلش کھلاڑی لوری ایونز سے وکٹ کیپنگ کرائی گئی اور سرفراز احمد کو فائنل الیون سے ڈراپ کر دیا گیا۔
عماد وسیم
کراچی کنگز کے سابق کپتان عماد وسیم اس سال اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ ہیں۔ لیکن کارکردگی کے حساب سے وہ اپنے مداحوں کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔
گزشتہ آٹھ سیزنز کے دوران 50 سے زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے آل راؤنڈر نے اس سال آٹھ میچز میں صرف چار وکٹیں ہی حاصل کی ہیں جب کہ بیٹنگ میں بھی صرف 14 رنز ہی بنا سکے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں ان کی مایوس کن کارکردگی کے پیچھے ان کی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے جو انہوں نے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے خلاف احتجاج کے طور پر گزشتہ سال نومبر میں کیا تھا۔
شان مسعود
عماد وسیم جس طرح کراچی کنگز کو چھوڑ کر اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ بنے۔ اسی طرح ملتان سلطانز کے شان مسعود کو کراچی کنگز نے بطور کپتان چنا۔
توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان کی ریڈ بال ٹیم کی قیادت کرنے والے بلے باز کراچی کنگز کی قسمت بھی بدل دیں گے۔ لیکن ان کے آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے ٹیم مشکلات کا شکار ہوگئی۔
اب تک کراچی کنگز کے 9 میچوں میں سے 9 میں ان کی بیٹنگ آئی۔ لیکن وہ ایک بار بھی نصف سینچری بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
ان کے مجموعی رنز کی تعداد 158 ہے جو انہوں نے 17.55 کی اوسط سے بنائے ہیں۔
محمد نواز
کراچی کنگز نے اس پی ایس ایل ایڈیشن کے لیے محمد نواز کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے ٹریڈ کیا تھا۔ لیکن آٹھ سیزن میں 70 وکٹیں لینے والے کھلاڑی کی فارم اس تبدیلی سے بھی نہیں بدلی۔
اب تک کراچی کنگز کے لیے انہوں نے آٹھ میچز کھیلے ہیں جس میں بلے بازی کرتے ہوئے انہوں نے 88 رنز بنائے اور بالنگ کرتے ہوئے صرف 2 وکٹیں حاصل کیں۔
ان کی مسلسل خراب کارکردگی ٹیم کو تو نقصان پہنچا ہی رہی ہے۔ ورلڈ کپ اسکواڈ میں ان کی جگہ پر بھی اس کی وجہ سے ایک سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔
فخر زمان
فخر زمان نے پاکستان کے لیے انٹرنیشنل لیول پر کئی یادگار اننگز کھیلی ہیں۔ لیکن جارح مزاج اوپنر کا پی ایس ایل نائن میں سفر کسی بھی طرح سے یادگار نہیں۔
پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں میں وہ بابر اعظم کے بعد 2525 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن اس سال آٹھ میچوں میں وہ صرف ایک نصف سینچری کی مدد سے 157 رنز بناسکے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کے اس مرتبہ پلے آف میں نہ پہنچنے کے پیچھے ان کے فارم کا بھی عمل دخل ہے۔
محمد عامر
اب تک پی ایس ایل کی تاریخ میں محمد عامر نے 72 میچز میں 68 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ لیکن ان کا اس سیزن میں چھ میچز میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا ان کے خراب فارم کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔
اس سال وہ پہلی مرتبہ کراچی کنگز کے علاوہ کسی ٹیم کا حصہ ہیں۔ لیکن کوئٹہ جانے کے بعد سے وہ کسی بھی میچ میں دو سے زائد کھلاڑی آؤٹ نہیں کرسکے۔
فہیم اشرف
فہیم اشرف کا شمار ان آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے جنہیں پاکستان سپر لیگ کی پیداوار بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس بار ان کی بطور بالر اور بلے باز کارکردگی ان کے ماضی کے ریکارڈ کی شایان شان نہیں۔
مجموعی طور پر 68 میچوں میں 75 وکٹیں لینے اور 778 رنز بنانے والے فہیم اشرف نے اس سیزن میں اب تک 8 میچوں میں 75 رنز بنائے اور صرف تین کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیجا ہے۔
رائیلی روسو
جنوبی افریقہ کے رائلی روسو اب تک پی ایس ایل کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے غیر ملکی کھلاڑی ہیں جنہوں نے 81 میچوں میں 1987 رنز بنائے ہیں۔
انہیں اسی کارکردگی کی وجہ سے اس بار کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا کپتان مقرر کیا گیا تاکہ وہ ٹیم کو مشکلات سے نکال سکیں۔ لیکن قیادت کے بوجھ سے ان کی بلے بازی متاثر ہوئی۔
اس سال وہ سات میچز میں صرف 120 رنز ہی بنا سکے ہیں جب کہ 34 ناٹ آؤٹ ان کا سب سے بڑا اسکور رہا ہے۔
ایلکس ہیلز
اسلام آباد کے ایلکس ہیلز بھی اس سال معیار پر پورا نہ اترنے والے کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو اس لیے بھی حیران کن ہے کیوں کہ ان کا شمار دنیا کے تباہ کن اوپنرز میں ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر41 میچوں میں 1156 رنز بنانے والے انگلش کھلاڑی کا اس مرتبہ پی ایس ایل میں حصہ صرف سات میچز میں 124 رنز رہا جس میں دو مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونا بھی شامل ہے۔
ویسے تو زمبابوے کے سکندر رضا بھی ایونٹ میں اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔