افغانستان پر بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید اختلافات اور محاذ آرائی کی کیفیت کئی برس سے جاری ہے اور بھارت نے افغانستان کو بھارتی اشیاء کی پاکستان کے راستے ترسیل ممکن نہ ہونے کے باعث ایران کے ساتھ ملکر چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے اپنی برآمدات شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس بندرگاہ کے ذریعے بھارتی گندم افغانستان پہنچتی رہی ہے۔
بھارت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور بعد میں وسطی اشیائی ممالک کو بھارتی برآمدات کیلئے چاہ بہار کی بندرگاہ کو استعمال کرے اور یوں چین پاکستان راہداری منصوبے کے تحت گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے سے قبل ہی اس کی اہمیت کو کم کر دے۔
اس سلسلے میں چاہ بہار بندرگاہ کی تیاری اور اسے فعال بنانے میں ایران نے بھارت کا بھرپور ساتھ دیا۔ تاہم ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے گزشتہ ماہ پاکستان کے دورے کے دوران اسلام آباد میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران نے پاکستان اور چین کو بھی چاہ بہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے جس کے بعد بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ اس سے چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے متبادل کے طور پر ترقی دینے کے سلسلے میں بھارتی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کے چاہ بہار منصوبے کو تجارتی حوالے سے بھی شدید دھچکہ لگا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ایران کے ساتھ ایکسائز ڈیوٹی کا تنازعہ ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے بھارت کے اردگرد اپنے اثرورسوخ میں بتدریج اضافہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ڈوکلم کے کچھ علاقے پر قبضہ کر کے چین نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت بھوٹان کی علاقائی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
یہ ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ چاہ بہار گوادر کے مقابلے میں وہ اسٹریٹجک سبقت حاصل نہیں کر پائے گا جس کی بھارت خواہش رکھتا ہے۔ چین نہ صرف گوادر کی ترقی میں خطیر سرمایہ کاری کر رہا ہے بلکہ اس بندرگاہ کو چلانے کیلئے اس کا انتظام و انصرام بھی چین کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ چین گوادر کے قریب اپنا بحری اڈا بھی تعمیر کر رہا ہے جس کی تکمیل کے بعد چین اور پاکستان بحر ہند میں بحریہ کی مشترکہ پیٹرولنگ شروع کر دیں گے۔ علاوہ اذیں، گوادر کا ہوائی اڈا بھی چین کو ہوائی جہازوں کی اُڑان کیلئے سہولت فراہم کرے گا جس کے ذریعے چین اسے جیبوتی میں موجود اپنے فضائی اڈے سے منسلک کر سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں چاہ بہار محض ایک تجارتی منصوبہ ہے اور اس کا کوئی عسکری پہلو نہیں ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چاہ بہار کی ترقی اُس وقت ممکن ہوئی جب ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پا جانے کے بعد اُس کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے کئی برس سے جاری اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ طے کیا جس میں افغانستان بھی شامل تھا۔
اس معاہدے کے تحت بھارت نے چاہ بہار میں ایک کارگو ٹرمنل اور ایک کنٹینر ٹرمنل تعمیر کیا۔ ان ٹرمنلز کی تیاری کے ساتھ بندرگاہ کی ترقی کا کام تیزی سے جاری رہا۔ اس بندرگاہ کی پہلی توسیع کا افتتاح اس سال کے شروع میں ہوا جس میں ایران نے بندرگاہ کے تیار شدہ حصے کا آپریشنل کنٹرول 18 ماہ کیلئے بھارت کے حوالے کر دیا۔
چاہ بہار کوریڈور کا اصل فائدہ افغانستان کو ہوا اور اُس نے اپنے کارگو ٹریفک کو کراچی سے چاہ بہار منتقل کرنا شروع کر دیا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بندرگاہ کی مزید توسیع کا کام شروع ہو گا تو اس کی تکمیل میں بھارت کو ملک کے اندر تجارتی ضابطوں کے ریڈ ٹیپ کے باعث شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس وقت چاہ بہار میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے مالی وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم اگر چین نے چاہ بہار میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کر لیا تو بھارت کیلئے صورت حال خاصی حد تک تبدیل ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاہ بہار کے حوالے سے موجودہ وقت میں بھارت کا سب سے بڑا چیلنج امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ہے جو ایک بار پھر ایران کو سخت پابندیوں کے تحت لانے کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی سخت الفاظ میں صدر ٹرمپ کو تنبیہ کر چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل جائے گا اور امریکہ کو اس کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
یوں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری محاذ آرائی کے تناظر میں بھارت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہو گا کہ ایران پر لگنے والی ممکنہ اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے وہ چاہ بہار کے ذریعے تجارت کیونکر کر پائے گا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بھارت ایسی اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا۔