پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ کی ’’اخلاقی و سیاسی‘‘ حمایت کا اعلان کیا ہے۔
نیب کی جانب سے حزب اختلاف کے سابق لیڈر کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی پارٹی خورشید شاہ کی گرفتاری کی مذمت کرتی ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’’اپوزیشن کی آواز دبانے کے لیے، نیب کو مستقل استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔
وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر سیاسی و قومی یکجہتی پیدا کرنے کی بجائے، حکومت حزب مخالف کے خلاف ضرب لگا رہی ہے‘‘۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کی نا اہلی اور لیڈر کی نا لائقی کے نتیجے میں معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے‘‘، اور یہ کہ ان کی جماعت ’’ان تمام عوامی مسائل پر شہروں میں احتجاج کا اعلان کرے گی‘‘۔
مولانا فضل الرحمان کے تجویز کردہ ’اسلام آباد مارچ‘ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے جے یو آئی (ایف) سے سیاسی اختلافات ہیں۔ لیکن، وہ اس احتجاج کی ’’مشروط حمایت‘‘ کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کچھ شرائط ہیں، جن پر بات ہونا باقی ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ وہ ’مذہب کارڈ‘ کا استعمال نہیں کریں گے اور جے یو آئی (ایف) کے ساتھ اختلاف کی یہی ایک وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی بالادستی، ایک جامع احتساب کو یقینی بنانا جس میں ’’جج اور جرنیل سب کا احتساب ہو سکے‘‘، میڈیا کی آزادی، جوڈیشل اور الیکٹورل اصلاحات وہ اہم نقاط ہیں جن کو وہ اپوزیشن کے مطالبات کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بغیر الیکٹورل اصلاحات کے نئے الیکشن بیکار ثابت ہوں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کی مدد کے بغیر بھی اپوزیشن الیکٹورل اصلاحات کر سکتی ہے، جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت جاری ہے۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن سے اب بھی رابطے جاری ہیں، گرچہ یہ اتنے آسان نہیں رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ جے یو آئی (ایف) یہ مارچ صرف اپنے بل بوتے پر کر رہی ہے یا اسے کسی غیر سیاسی قوت کی حمایت حاصل ہے۔