چھیالیس سالہ سید علی رضا عابدی کو منگل کی شب نامعلوم افراد کی جانب سے اس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ڈیفینس، خیابان غازی میں اپنے گھر پہنچے تھے۔ اس وقت وہ گاڑی میں اکیلے تھے۔
علی رضا عابدی ایم کیو ایم پاکستان میں پڑھے لکھے اور نظریاتی کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھوں نے امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے مارکیٹنگ کے شعبے میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ 1988 میں زمانہٴ طالبعلمی میں جب وہ ایس ایم کامرس کالج میں تھے تب وہ ’اے پی ایم ایس او‘ کا حصہ بنے۔ لیکن، باقاعدہ طور پر 2008 میں وہ پارٹی اور سیاست کا حصہ بنے۔
اور ان کو اس وقت سوشل میڈیا چلانے اور اسے متحرک رکھنے کی ذمہ داری دی گئی، جو انھوں نے بخوبی نبھائی۔ 2013 کے انتخابات میں انھیں پارٹی کی جانب سے این اے 251 سے کھڑا کیا گیا جہاں انھوں نے اپنے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے راجہ اظہر کو اکیاسی ہزار چھ سو تین ووٹ حاصل کرکے شکست دی اور رکن قومی اسمبلی بن گئے۔
رواں برس 2018 ہونے والے انتخابات میں وہ این اے 243 سے عمران خان کے مد مقابل امیدوار تھے۔ یہ نشست عمران خان جیت گئے۔
لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے جب یہ نشست چھوڑی تو اسی نشست پر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں انھیں دوبارہ اس سیٹ کے لئے پارٹی کی جانب سے منتخب نہ کرنے اور اس پر فیصل سبزواری کو کھڑا کرنے پر پارٹی اختلافات طول اختیار کر گئے جس پر انھوں نے پارٹی کو خیرباد کہہ کر بنیادی رکنیت سازی کا استعفیٰ خالد مقبول صدیقی کو بھیج دیا اور اسکی تصویر بھی انھوں نے خود ٹوئیٹر پر پوسٹ کی۔
ایک انٹرویو کے دوران پارٹی کو خیرباد کہنے کی وجہ بتاتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ انھیں ایم کیو ایم، پی آئی بی گروپ کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے۔
سیاست کے ساتھ ساتھ علی رضا عابدی نے کراچی میں سی فوڈ ایکسپورٹ کا بزنس شروع کیا اور اسی کی مناسبت سے انھوں نے ایک سی فوڈ بریانی کا ریسٹورنٹ بھی قائم کیا، جو خاصا مقبول رہا۔
جولائی 2015میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کی کاروائیوں میں علی رضا عابدی کے ریستوران کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ رینجرز کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ریستوران پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے علی رضا عابدی، انکے کزن سمیت ایک شخص قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھا۔
یامین الیاس کو حراست میں لیا گیا، جو مبینہ طور پر بھتہ خوری سمیت پر تشدد واقعات، قتل و غارت میں ملوث تھا۔ اس واقعے پر اس وقت پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹ، اسپیکر قومی اسمبلی کی مذمت کرتے ہوئے اسے رینجرز کی جانب سے غیر قانونی چھاپہ قرار دیا گیا تھا۔
تاہم،22 اگست2016 کے بعد سے جب ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو علی رضا عابدی نے فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کا ساتھ دیا اور اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے پارٹی میں شامل رہے۔ وہ ان حالات میں میڈیا پر نہ صرف پارٹی کا دفاع کرتے نظر آئے بلکہ مسائل کی نشاندہی ہو یا حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا ہو، انھوں نے بلا خوف اپنے مؤقف ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کئے۔
یہی وجہ تھی کہ علی رضا عابدی سوشل میڈیا، بالخصوص ٹوئیٹر پر کافی متحرک دکھائی دیتے تھے اور اپنی صاف گوئی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات کے سبب مقبول تھے۔
اپنی موت سے چار گھنٹے قبل بھی انھوں نے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کی جیت پر اور پھر سے ابھرنے سے متعلق ایک مضمون کو ری ٹویٹ کیا اور تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹویٹ کی۔
سال 2018 کے انتخابات سے قبل ہی ایم کیو ایم دو گروپوں میں تقسیم دکھائی دی جس میں ایک فاروق ستار کا ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ اور خالد مقبول اور عامر خان بہادر آباد گروپ میں تقسیم دکھائی دیے۔ لیکن، اس موقع پر بھی وہ فاروق ستار کے ساتھ رہے۔
لیکن، کچھ ماہ قبل وہ ایم کیو ایم پاکستان کو خیرباد کہہ چکے تھے۔