رسائی کے لنکس

ریاستی انتخابات: بی جے پی 'سیمی فائنل' جیت گئی اب کیا 'فائنل' بھی جیت جائے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ اور منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی دوبارہ کامیابی کے بعد نئی دہلی میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ان انتخابی نتائج کے قومی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے اور کیا اب بی جے پی کے لیے 2024 کا پارلیمانی انتخاب جیتنا آسان ہو جائے گا؟

بی جے پی کو انتخابی میدان میں بہت مشکلات کا سامنا تھا اور مہنگائی و بے روزگاری سمیت متعدد ایشوز تھے جنہیں اپوزیشن جماعتیں اٹھا رہی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی پھر بھی کامیاب ہو گئی۔

انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کی نظریں اترپردیش پر مرکوز تھیں۔ وہاں کے الیکشن کو 2024 کے پارلیمانی الیکشن کا سیمی فائنل کہا گیا تھا۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سیمی فائنل جیتنے والی جماعت فائنل بھی جیتنے جا رہی ہے یا اس وقت تک حالات کچھ اور رخ اختیار کر سکتے ہیں؟

اس بارے میں جب وائس آف امریکہ نے متعدد تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصروں سے بات کی تو انہوں نے ملاجلا ردعمل ظاہر کیا۔

’موجودہ نتائج کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے‘

دہلی یونیورسٹی میں استاد اور سینئر تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بی جے پی کی جیت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ اس کی نظریاتی یعنی ہندوتوا کی سیاست ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس سیاست کو براہ راست چیلنج نہیں کیا۔ اگر چیلنج کیا ہوتا تو آج نتائج دوسرے ہوتے۔

ان کے مطابق موجودہ نتائج قومی سیاست اور عوامی زندگی پر بہت خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔ کیونکہ جمہوری حکمرانی کا جو تصور ہے وہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ یوپی کی یوگی حکومت نے قانون کی حکمرانی کی جگہ پر بلڈوزر کی حکمرانی کا تصور پیش کیا ہے جسے اس الیکشن نے جواز فراہم کر دیا۔

ان کے مطابق عدلیہ ہو یا دوسرے آئینی ادارے سب کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب ان اداروں کو ایسی حکومت کا سامنا ہوگا جو قانون کی جگہ پر بلڈوزر کا استعمال کرتی ہے۔

خیال رہے کہ یوگی حکومت کے دوران جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں بلڈوزر سے ان کے مکانات کو منہدم کرنا بھی شامل تھا۔ یوگی نے بارہا اس بات پر فخر کا اظہار کیا تھا کہ ان کی حکومت کو ’بلڈوزر حکومت‘ کہا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی متعدد انتخابی ریلیوں میں بلڈوزر بھی لائے جاتے تھے۔

پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ایسی ریاست بن جائے جو قانون کے بجائے کسی اور طاقت سے کام کر رہی ہو تو اس پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ان انتخابی نتائج کے پارلیمانی انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر ملک کی سیکولر اور جمہوریت نواز طاقتوں کو بھارت کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنائے رکھنا ہے تو انہیں بی جے پی کی نظریاتی سیاست کا مقابلہ کرنا ہوگا اور عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ سیاست ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

’پارلیمانی الیکشن پر اثرات پڑ سکتے ہیں‘

لیکن ڈاکٹر ابھے کمار مشرا کہتے ہیں کہ ان انتخابی نتائج کے اثرات 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج نے بی جے پی اور اس کے کارکنوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔ لہٰذا اگر 2024 کا الیکشن بھی بی جے پی جیت لے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق اب بی جے پی کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ ان کے مطابق یوپی میں سماجوادی اتحاد کو تو اچھی نشستیں ملی ہیں لیکن دیگر اپوزیشن جماعتیں کمزور ہوئی ہیں جو جمہوری نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ خاص طور پر اترپردیش میں شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جو لوگ مظاہرہ کر رہے تھے ان کے اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں کے خلاف یوگی حکومت کی کارروائیاں بڑھ جائیں گی۔

ان کے مطابق بی جے پی کی سیاست کا جو زاویہ ہے وہ ایک مذہب کے لوگوں کو خوش کرنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دیوار سے لگانے کا ہے جو ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور اب اس کی پالیسی میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی۔

لیکن ایک سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس اندیشے کو مسترد کرتے ہیں۔

’شدت پسندی سے بی جے پی کو نقصان ہوگا‘

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو انتخابی میدان میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ اس کی جارحانہ اور شدت پسند سیاست ہی رہی۔ اگر اس نے اپنی جارحانہ سیاست کو مزید آگے بڑھایا تو 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر ا س کا منفی اثر پڑے گا۔

ان کے مطابق اگلے پارلیمانی انتخابات سے قبل کئی ریاستوں کے انتہائی اہم انتخابات ہونے والے ہیں جن میں اسی سال کے آخر میں گجرات اسمبلی او راگلے سال کے مارچ میں کرناٹک اسمبلی کا الیکشن بھی شامل ہے۔ ان ریاستوں کے نتائج کا پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان پانچوں ریاستوں اور بالخصوص اترپردیش کے الیکشن کو تمام پارٹیاں اور تجزیہ کار 2024 کا سیمی فائنل مان رہے تھے۔ یو پی میں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں۔ یوپی کا الیکشن بی جے پی کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ وہ یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اس کے لیے 2024 کے الیکشن کا راستہ کھلا ہوا ہے۔

ان کے مطابق یہ الیکشن دوسری پارٹیوں کے لیے بھی بہت اہم تھا۔ کیونکہ سب سے بڑی ریاست میں جسے کامیابی ملتی 2024 میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے۔ اسی لیے بی جے پی نے اس الیکشن میں بہت زیادہ طاقت او ر توانائی لگائی۔

ان کے بقول اسی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست میں خوب ریلیاں کیں۔ وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یوپی ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کا راستہ یوپی سے ہی جاتا ہے۔ خود وزیر اعظم یوپی کے بنارس سے لوک سبھا کے رکن ہیں۔ لہٰذا بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کا بھی بہت کچھ داو پر تھا۔

’ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘

ان کے مطابق اس الیکشن کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ بی جے پی کے حق میں ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہی نتیجہ 2024 میں بھی آئے گا۔ 2024 ابھی دور ہے لیکن پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کے لیے اس انتخابی نتیجے کے پیش نظر اپنے حق میں فضا ہموا رکرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے انتخابی مہم سے قبل ہی یوپی کے دورے میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ اگر آپ 2024 میں وزیر اعظم مودی کو جتانا چاہتے ہیں تو 2022 میں یوگی کو جتائیں۔

ہرویر سنگھ کے مطابق وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عوام نے ان کی اپیل کو مان کر یوگی کو جتایا ہے۔ لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بی جے پی کے پاس بہت زیادہ وسائل ہیں۔ وہ سب سے بڑی پارٹی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ متعدد وزرا نے بھی انتخابی مہم چلائی۔ اس کا بھی اثر پڑا ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نتائج بلا شبہ 2024 کے انتخاب کے لیے ایک اشارہ ہیں۔

’قومی سیاست متاثر ہو گی‘

سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس ) سے وابستہ سنجے کمار کے مطابق اگر ہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہونے والے اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ دوسری ریاستوں میں عوام نے مختلف انداز میں ووٹ ڈالے ہیں۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی شکست بھی ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی اسی طرح بی جے پی کو کامیابی ملے گی۔

ان کے مطابق 2023 میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہٰذا موجودہ نتائج کی بنیاد پر 2024 کے نتائج کا اندازہ لگانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ہمیں ابھی یہ دیکھنا ہے کہ اگلے سال کے اسمبلی انتخابات کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان نتائج کا قومی سیاست پر اثر پڑے گا۔ یہ نتائج کانگریس اور بی ایس پی کی سیاست پر بھی اثر ڈالیں گے۔

بعض دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ انتخابی نتائج سے بی جے پی اور اس کے کارکنوں کو حوصلہ ملا ہے اور وہ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

’بی جے پی نے پوری طاقت لگا دی تھی‘

ہرویر سنگھ کے مطابق یہ کہنا غلط ہے کہ کسانوں کی تحریک کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بہت سے ایشوز تھے جن کے اثر پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی نشستیں کم اور سماجوادی کی زیادہ ہوئی ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کے سامنے اپنی بات مؤثر انداز میں رکھنے میں ناکام رہیں۔ اپوزیشن کے پاس لیڈرز کی کمی رہی۔ جب کہ بی جے پی کی طرف سے مودی سے لے کر یوگی تک سب نے مہم چلائی۔

ان کے مطابق بی جے پی اپنی بات عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہی۔ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت بڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہندو احیا پسند جماعت راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ سب لوگ انتخابی مہم میں مصروف رہے۔اپوزیشن جماعتیں وسائل کے معاملے میں بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے جس طرح کئی برادریوں کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک اتحاد قائم کیا تھا وہ ناکام نہیں رہا۔ اس کی نشستوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق تاہم بی جے پی نے جو حکمت عملی اپنائی وہ کامیاب رہی لیکن پوری طرح نہیں۔ کیونکہ اس کی کارکردگی میں 25 فی صد کی کمی آئی ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کی وجہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے دلت (نچلی ذات) ووٹوں کا اس کی طرف جھک جانا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG