بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گجرات کے اسمبلی انتخابات میں ریکارڈ کامیابی حاصل کر کے وہاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ حکمراں جماعت یہاں مسلسل ساتویں بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔
ریاستی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گئی ہے جس کے مطابق گجرات میں بی جے پی کو 156، کانگریس کو 17 اور عام آدمی پارٹی کو پانچ نشستیں ملی ہیں۔
ہماچل پردیش میں کانگریس کو 40 اور بی جے پی کو 25 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔
گجرات میں بی جے پی کو 2017میں 182 رکنی ایوان میں 99 نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ حکومت سازی کے لیے 92 سیٹوں کی ضرورت تھی۔ واضح رہے کہ بی جے پی ریاست میں 1995 سے ایک بھی اسمبلی انتخاب نہیں ہاری ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کی نشستیں پہلے سے بھی کم ہو گئی ہیں۔ 2017 میں اسے 77 سیٹیں ملی تھیں جب کہ اس بار اسے صرف 17سیٹیں ہی ملی ہیں۔ تاہم وہ ایوان میں اپوزیشن پارٹی بنی رہے گی۔
دہلی میں حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی نے پہلی بار گجرات میں الیکشن لڑا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ بی جے پی کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی حکومت بنائے گی۔ اس نے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے متعدد ’خوش کن‘اعلانات اور وعدے کیے تھے۔ لیکن وہ صرف چھ سیٹوں پر آگے ہے۔
بدھ کو دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو شکست دی تھی۔ کارپوریشن میں بی جے پی 15 برسوں سے اکثریت میں تھی۔
کانگریس پارٹی اس وقت راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں مصروف ہے۔ اس کے بڑے رہنما گجرات کی انتخابی مہم میں نظر نہیں آئے۔ مبصرین کے مطابق اس نے انتخاب جیتنے کی ذمہ داری امیدواروں پر ہی چھوڑ دی تھی۔
بی جے پی نے گجرات میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مہینوں پہلے سے ہی اپنی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔ انتخابی پروگراموں کے اعلان کے بعد نریندر مودی نے ریاست میں 30 ریلیاں کی تھیں۔
اُنہوں نے پہلے مرحلے کی مہم کے خاتمے کے اگلے روز دو دسمبر کو 50 کلومیٹر کا طویل روڈ شو کیا تھا۔ 2014 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِِ اعظم بننے سے قبل نریندر مودی 13 سال تک ریاست کے وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں ۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی ریاست میں زبردست مہم چلائی تھی۔ انہوں نے وہاں کئی ہفتے گزارے تھے۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کسی بھی قیمت پر گجرات کا الیکشن جیتنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ دونوں کا ہوم اسٹیٹ ہے۔
پولنگ مکمل ہونے کے بعد متعدد نشریاتی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے ایگزٹ پول میں بی جے پی کو گجرات میں 117 سے 151 اور کانگریس کو 16 سے 51 کے درمیان اور عام آدمی پارٹی کو 13 نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اب بھی کافی مقبول رہنما ہیں اور خاص طور پر گجرات میں وہ بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے وہاں زبردست انتخابی مہم چلائی جس کے نتیجے میں بی جے پی کو ریکارڈ کامیابی ملی ہے۔
سینئر تجزیہ کار ویریندر سینگر کہتے ہیں کہ مودی کی مقبولیت اپنی جگہ پر ہے لیکن بی جے پی نے دو ایشوز کو انتخابی ایجنڈا بنایا۔ ایک مودی حکومت کی ترقیاتی سرگرمیاں اور دوسرے مذہبی معاملات۔
انہوں نے کہا کہ چوں کہ گجرات مودی کا گڑھ ہے اس لیے بی جے پی اسے کھونا نہیں چاہتی۔ اس نے بہت پہلے سے ہی ہندوؤں کو راغب کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔
ان کے بقول بلقیس بانو کیس میں سزا یافتہ افراد کو قبل از وقت جیل سے رہا کروانا، فسادات کے معاملے میں نرودا پاٹیا کے عمر قید سزا یافتہ منوج ککرانی کی بیٹی پائل ککرانی کو ٹکٹ دینا اور منوج کو ضمانت دلوانا، یہ وہ معاملات ہیں جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی نے مذہب کی بنیاد پر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔
ان کے بقول گجرات میں انتخابی مہم کے دوران بار بار 2002 کے فسادات کا ذکر کیا گیا۔ یہاں تک کہ امت شاہ نے کہا کہ 2002 میں شرپسندوں کو سبق سکھا دیا گیا اور اب انہوں نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بیان سے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو ایک پیغام دیا۔
'گجرات میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم نہیں چلائی'
دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری پارٹیوں کی جانب سے اس طرح انتخابی مہم نہیں چلائی گئی جیسی کہ بی جے پی کی جانب سے چلائی گئی۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس کو انتخابی مہم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے بڑے بڑے رہنما راہل گاندھی کی بھار ت جوڑو یاترا میں مصروف ہیں۔
ادھر ہماچل پردیش میں بی جے پی کو شکست کا سامنا ہے۔ وہ وہاں پانچ سال سے برسراقتدار تھی۔ ریاست کی 68 رکنی اسمبلی میں بی جے پی 26 پر جب کہ کانگریس 40 پر آگے ہے۔ اب یہ تقریباً طے ہو گیا ہے کہ ہماچل پردیش میں کانگریس حکومت بنانے جا رہی ہے۔
ہماچل میں کسی بھی پارٹی کے مسلسل دوسری بار کامیاب ہونے کی روایت نہیں رہی ہے۔ تاہم کانگریس کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ ا س کے منتخب ارکان اسمبلی کو بی جے پی کی جانب سے اپنی طرف لانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی لیے کانگریس کے تمام منتخب ارکان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کامیابی کا سرٹیفکیٹ لے کر چنڈی گڑھ پہنچیں۔ ان کو حلف برداری کے روز ریاستی دار الحکومت شملہ لے جایا جائے گا۔
بعض مبصرین انتخابات میں نریندر مودی کی مقبولیت کے اثرات سے انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں نریندر مودی کی مقبولیت کا کوئی بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماچل پردیش میں بی جے پی کیوں نہیں جیتی اور دہلی میونسپل کارپوریشن کاالیکشن وہ کیوں ہار گئی۔ جب کہ دونوں جگہوں پر بی جے پی کے بڑے بڑے رہنماوں نے اور متعدد وزرا نے مہم چلائی تھی۔
ان کے خیال میں بی جے پی انتخابی مہم کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی ہمیشہ الیکشن کے موڈ میں رہتے ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اور کارکن آخر وقت تک محنت کرتے ہیں اور پولنگ کے روز ایک ایک ووٹر کو گھر سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری پارٹیاں ایسا نہیں کر پاتیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے گجرات میں ریکارڈ بنایا ہے۔ ان کے خیال میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کا 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑے گا۔ لیکن یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ نیشنل الیکشن میں نیشنل ایشوز کام کرتے ہیں۔