پاکستان میں رواں سال کے آغاز پر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر سرگرم پانچ کارکنوں کی گمشدگی کا معاملہ بدستور ملک میں ایک بڑا موضوع بحث ہے۔
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے یہ کارکن اسلام آباد اور لاہور سے لاپتا ہوئے، اُن میں سلمان حیدر، وقاض گورایہ، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس شامل ہیں۔
ان پانچوں افراد کے بارے میں سرکاری طور پر تاحال کسی طرح معلومات سامنے نہیں آئی ہیں کہ یہ کیسے لاپتا ہوئے۔
لیکن گزشتہ کچھ روز سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر ہی ان گمشدہ سرگرم کارکنوں کے خلاف ایسی مہم بھی سامنے آئی جس میں یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ لاپتا ہونے والے کارکن توہین مذہب کے مرتکب ہوئے۔
اس مہم نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کا الزام لگا کر لاپتا کارکنوں کی جان کو خطرے میں ڈالا گیا ہے۔
’’یقینی طور پر اُن کی جان کو خطرہ ہے، اگر اُن پر اس طرح کا الزام لگایا جائے۔۔۔ جب ملک میں الیکٹرانک کرائم کا قانون موجود ہے تو حکومت کو اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے جو اس طرح سوشل میڈیا پر آ کر الزام لگا رہے ہیں اُور اُن کی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘‘
زہرہ یوسف نے کہا کہ توہین مذہب کا الزام پاکستان میں انتہائی حساس معاملہ ہے۔
’’ہم جانتے ہیں کہ توہین مذہب کے الزام میں قانونی طور پر تو کسی کی سزا موت پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ لیکن تشدد کے واقعات میں ایسے الزامات پر 60 سے زیادہ لوگوں کی جان جا چکی ہے، تو یہ ایک بہت خطرناک پیش رفت ہے۔‘‘
دوسری جانب انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ کی عہدیدار شمائلہ خان کہتی ہیں کہ حالیہ گمشدیوں کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر رائے کا اظہار کرنے والوں کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔
’’ان (گمشدیوں) کے بعد جو لوگ متنازع موضوعات کے بارے میں بات کرتے تھے اُنھوں نے بالکل بات کرنی چھوڑ دی ہے۔۔۔۔ جو تھوڑی سی ڈیجٹیل اسپیس رہ گئی تھی وہ بھی کافی سکڑ چکی ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ قانون سازوں کی طرف سے بھی حکومت سے یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ گمشدہ کارکنوں کی جلد اور باحفاظت بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ لاپتا ہونے والے کارکنوں کی بازیابی کے لیے جاری تفتیش میں پیش رفت ہوئی ہے اور اُنھوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا تھا کہ لاپتا ہونے والے افراد کو جلد بازیاب کروا لیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے ہی انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن نے سپریم کورٹ سے بھی استدعا کی تھی کہ وہ لاپتا ہونے والے سماجی کارکنوں کے معاملے کا نوٹس لے۔