افغانستان کے دارلحکومت کابل میں وزارت دفاع کی عمارت کے قریب بم حملے کے نتیجہ میں 35 بچوں سمیت 100 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جب کہ افغان فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی جاری ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وزارت دفاع کی عمارت کے قریب بم ٹرک میں نصب تھا جو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب عام طور پر اس علاقے میں رش ہوتا ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق کم سے کم تین حملہ آور دھماکے کے دوران وزارت دفاع کے شعبہ انجینئرنگ میں گھس گئے۔ جہاں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ان کی فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا ہے کہ زوردار دھماکے بعد حملہ آور عمارت کے اندر گھس گئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ حملہ آوروں اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کارروائی میں وزارت دفاع کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ 'متعدد طالبان جنگجو، شہری اور سرکاری ملازمین زخمی ہوئے ہیں۔'
وزارت صحت کے ترجمان وحید اللہ میئر کے مطابق دھماکے میں 35 بچوں سمیت 100 افراد زخمی ہوئے، تاہم ہلاکتوں سے متعلق انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے کابل میں نامہ نگار کا کہنا ہے کہ 'دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ان کے دفتر کی عمارت بھی لرز اٹھی۔ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں اور ایمبولینسز کے سائرن گونجنے لگے۔'
حکام کے مطابق جائے وقوعہ کے قریب متعدد سرکاری اور غیر سرکاری تنصیبات اور دفاتر ہیں۔ افغانستان فٹ بال فیڈریشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکے میں ان کے صدر سمیت متعدد اراکین بھی زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کابل دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے، متاثرہ افراد کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
دفترخارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے حملے افغانستان کے امن و استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
کابل میں دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ساتواں دور قطر کے دارلحکومت دوحہ میں جاری ہے۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی مذاکراتی عمل میں شریک ہیں، جس کا مقصد افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
دوحہ مذاکرات میں چار نکات زیر بحث ہیں جن میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا، مکمل جنگ بندی، بین الافغان مذاکرات اور انسداد دہشت گردی شامل ہیں۔
زلمے خلیل زاد متعدد بار طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کر چکے ہیں تاہم طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ جب تک امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے نکل نہیں جاتیں اس وقت تک جنگ بندی ممکن نہیں ہے۔