کابل کے شمال میں، پولیس کے مطابق، ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران بم دھماکہ ہوا جس میں 12 نمازی ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔ یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور نیٹو کی افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا شروع کر دیا ہے اور امریکی فوج نے جمعے کے روز قندھار کے اہم اڈے کو خالی کرتے ہوئے اسے مقامی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔
افغان پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز کے مطابق مسجد میں دھماکہ اس وقت ہوا جب باجماعت نماز شروع ہو چکی تھی۔ مسجد کے امام مفتی نعمان بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس حملہ کا اصل نشانہ بھی امام ہی ہو سکتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مسجد پر اس حملے سے اپنے عسکریت پسندوں کے کسی بھی تعلق کو مسترد کیا ہے۔ اور اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پیچھے افغانستان کی خفیہ ایجنسی ہاتھ ہے۔
ماضی میں طالبان اور حکومت،دونوں جانب سے ایسے حملوں میں ایک دوسرے پر الزام عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
ایک عینی شاہد محب اللہ شہزاد نے بتایا ہے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے ایک زوردار دھماکہ سنا، جس کے بعد چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد نعشیں مسجد کے فرش پر پڑی دیکھی۔ ان کے بقول زخمی ہونے والوں میں کم از کم ایک بچہ بھی شامل تھا۔
عینی شاہد کے مطابق بظاہر یہ لگتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد کو منبر کے ساتھ کہیں چھپا کر رکھا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر دھماکے سے متعلق گردش کرنے والی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین لاشیں مسجد کے فرش پر پڑی ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان عید الفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کو ابھی دوسرا روز تھا، جب یہ دھماکہ ہوا۔ افغان حکومت نے کہا ہے کہ وہ تین روزہ جنگ بندی پر عمل درآمد جاری رکھے گی۔
کابل میں ایسے کئی حملوں کی ذمہ داری داعش سے وابستہ مقامی گروپوں نے قبول کی ہے، جب کہ طالبان اور افغان حکومت ان حملوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کابل ہی میں ایک کار بم دھماکے میں 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے زیادہ تر سکول کی طالبات تھیں۔ طالبان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
امریکہ نےافغانستان میں ایک اور بڑا فوجی اڈہ مقامی فوج کے حوالے کر دیا
افغانستان میں عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ جمعے کے روز امریکہ نے ایک اور بڑا فوجی اڈہ مقامی فوج کے حوالے کر دیا ہے، واضح رہے کہ امریکی اور نیٹو افواج ملک سے بتدریج نکل رہی ہیں۔
جنوبی قندھار میں واقع یہ فوجی اڈہ ایک وقت میں 30 ہزار غیر ملکی فوجیوں کے استعمال میں رہا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ قندھار ایئر فیلڈ کا کنٹرول اس ہفتے افغان سیکیورٹی فورسز کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا عمل یکم مئی سے شروع ہوا تھا جو صدر جو بائیڈن کی پالیسی کے مطابق 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔
یو ایس سینٹرل کمانڈ نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے واپسی کا چھ سے 12 فیصد تک عمل مکمل کر لیا ہے۔ اعلان کے مطابق ایک سو مال بردار طیاروں میں سامان و آلات افغانستان سے باہر بھجوا دیے گئے ہیں جب کہ 18 سو کے قریب آلاتِ حرب کو تلف کر دیا گیا ہے۔
امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان جان کربی نے بھی جمعرات کو فوج کی واپسی کے عمل کی تصدیق کی تھی اور بتایا کہ یہ عمل طے شدہ رفتار کے مطابق جاری ہے۔ تاہم انہوں نے سیکیورٹی خدشات کا ذکر کرتے ہوئے آپریشنل تفصیلات بتانے سے گریز کیا تھا۔