رسائی کے لنکس

بلنکن: غزہ جنگ بندی کے بغیر وطن واپسی، اب توجہ کس پر مرکوز ہے؟


امریکی وزیر خارجہ۔
امریکی وزیر خارجہ۔
  • امریکی وزیر خارجہ مسلسل مایوسی کے بعد اب اس پر توجہ مرکوز کررہے ہیں کہ جنگ کے بعد کیا ہوگا۔
  • بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاران الزامات کاسامنا ہےکہ ان کی سفارت کاری ناکام رہی ہے۔
  • اسرائیل کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے حملےکے بعد کسی بڑی انتقامی کارروائی سے روکنا کبھی بھی حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔اہل کار
  • اگر اسرائیل پر، امریکی دباؤ نہ ہوتا تو ،صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہوتی۔اہلکار
  • بائیڈن انتظامیہ خطے میں اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے قریب بھی نہیں ہے۔ تجزیہ کار

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کے روز مشرق وسطیٰ کی شٹل ڈپلومیسی کا گیارھواں دور غزہ میں کسی جنگ بندی کے حصول کیے بغیر ختم کیا۔ لیکن مسلسل مایوسی کے بعد اس بار بلنکن ایک نئے طریقہ کار کی کوشش کررہے ہیں جس کا آغازیہ طے کرنا ہے کہ جنگ کے بعد کیا ہوگا؟

اگست میں جب بلنکن نے آخری بار اسرائیل کا دورہ کیا تھا، تو کھلے عام پر کہا تھا کہ یہ امریکہ کے تجویز کردہ اس معاہدے کے لیے "آخری موقع" ہو سکتا ہے جو ایک عارضی جنگ بندی اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں پکڑے گئے یرغمالوں کو آزاد کرنے کی پیشکش کرتاہے۔

بلنکن نے کوشش جاری رکھی ہے اور جمعرات کو کلیدی ثالث قطر کے ساتھ اعلان کیا کہ مذاکرات کار جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کےساتھ دوحہ میں ، فوٹو اے ایف پی 24 اکتوشد 2024
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کےساتھ دوحہ میں ، فوٹو اے ایف پی 24 اکتوشد 2024

قطر میں، بلنکن نے کہا کہ وہ جنگ کے" بعد کےلیے کوئی منصوبہ تیار کرنےکے خواہاں ہیں تاکہ اسرائیل غزہ سے واپس جا سکے، تاکہ حماس اپنی تشکیل نو نہ کر سکے، اور تاکہ فلسطینی عوام اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں اور کسی فلسطینی قیادت کے تحت اپنے مستقبل کی تعمیر نو کر سکیں"۔

اس پورے سفر کے دوران، جو جمعے کو لندن میں عرب وزرا کے ساتھ ملاقاتوں پر ختم ہوا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ان ٹھوس تجاویز پر بات کی "جو ہم غزہ میں سیکورٹی کےلیے، گورننس کے لئے اور تعمیر نو کے لیے تشکیل دیتے رہے ہیں۔ "

انہوں نے کہاکہ،" یہ ہر ملک کے لیے یہ فیصلہ کرنے کا لمحہ ہے کہ وہ غزہ کو جنگ سے امن کی طرف لے جانے میں کیا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔"

اسرائیل میں بلنکن نے کہا تھا کہ ملک نے حماس کو نیچا دکھا کر اور گزشتہ ہفتے گروپ کے رہنما یحییٰ سنوار کو ہلاک کر کے غزہ میں اپنے زیادہ تر اسٹریٹجک مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں، بلنکن اور امریکی حکام لفظ "جنگ بندی" کے استعمال میں احتیاط برت رہے ہیں، اس کی بجائے مزید عمومی طور پر جنگ کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے کہہ رہے ہیں۔

ان کی گفتگو تیزی سے غزہ پر حکومت کرنے کے منصوبے پر مرکوز ہوئی ہے جس میں عسکریت پسند گروپ حماس کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے،جس نے 2007 سے غربت ذدہ اور گنجان آباد علاقے پر حکومت کی ہے ۔

مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو اسرائیل کو یہ آپشن پیش کیا جائے کہ وہ فتح کا اعلان کرے اور خود ہی باہر نکل جائے۔۔ لیکن مستقبل کے بارے میں اعتماد کے ساتھ۔

سنوار کی موت نے صدر جو بائیڈن کو ،امریکی صدارتی انتخابات سے چند روز قبل،نجن میں ڈیموکریٹس اور ان کی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس کو اسرائیل قابو میں رکھنے کے لیے خاطر خواہ کام نہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، بلنکن کو مشرق وسطیٰ بھیجنے پر مجبور کیا۔

بلنکن کی سفارت کاری اپنی جگہ تاہم جنگ نے مزید مصائب کو جنم دیا ہے۔

مقامی حکام کے مطابق غزہ کے شمال میں صرف چند ہفتوں کے دوران 770 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں شہری پھنسے ہوئے ہیں۔

سابق دوروں میں، بلنکن جنگ کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہے ہیں ۔لیکن اسرائیل نے گذشتہ ماہ لبنان میں ایک نئی کارروائی شروع کی ، جس میں امریکہ اور فرانس کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اس نے حماس کی اتحادی حزب اللہ کو نشانہ بناتے ہوئے حملوں میں اضافہ کیاہے۔

لندن میں اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اعلیٰ امریکی سفارت کار کی کوششوں کو سراہا لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے اسکے موثرہونے کے بارے میں سوال اٹھایا۔

صفادی نے کہا کہ،"بدقسمتی سے، ہم جب بھی ملتے ہیں، مشرق وسطیٰ مزید بدتر ہو رہا ہے۔"

انہوں نے کہا، " وجہ ہماری جانب سے کوششوں کا فقدا ن نہیں ہے ، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسی اسرائیلی حکومت کا سامنا ہے جو کسی کی نہیں سنتی اور اسے روکنا ہو گا۔

بائیڈن نے، جو سیاست میں اپنے کئی عشروں کے دوران اسرائیل کے کٹر حامی رہے ہیں، واضح کر چکے ہیں کہ ان کی انتظامیہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے بھی اپنی فوجی مدد برقرار رکھے گی۔

بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار ان الزامات کا مقابلہ کر رہے ہی کہ اس کی سفارت کاری ناکام رہی ہے۔

ان کااستدلال ہے کہ اسرائیل کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے حملے پر کسی بڑی انتقامی کارروائی کو روکنا کبھی بھی حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر اسرائیل پر، جو غزہ کو کچلنے کے لیےمکمل ناکہ بندی کی دھمکی دے چکا تھا ،امریکی دباؤ نہ ہوتا تو صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہوتی۔

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو برائن کیٹلس نے ، جوبل کلنٹن کی انتظامیہ میں کام کر چکے ہیں کہا کہ امریکی سفارت کاری نے نومبر میں مختصر جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی حاصل کی تھی۔

انہوں نے کہا، "امریکہ کے فوجی اقدامات اور سیکورٹی تعاون کے ساتھ ساتھ خاموش امریکی سفارت کاری نے ممکنہ طور پر ایک وسیع تر علاقائی جنگ کو روکا ہے اور اسرائیل اور ایران کے درمیان ادلے بدلے کی فوجی جھڑپوں کو اس سے زیادہ بدتر ہونے سے روک دیا ہے جتنا وہ ہو سکتی تھیں ۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "تاہم بائیڈن انتظامیہ خطے میں اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے قریب بھی نہیں ہے، اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بلنکن کے متعدد دوروں نے یہ ظاہر کرنے کے علاوہ کچھ حاصل کیا ہےکہ امریکہ کے پاس کتنی کم طاقت اور کتناکم اثر و رسوخ ہے اور یہ کہ وہ واقعات پرکسی رد عمل کے بجائے انہیں کوئی شکل دینے کے لیے استعمال کرنے کی رضا رکھتا ہے۔"

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG