امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن رواں ہفتے مشرقِ وسطیٰ کا ایک اور دورہ کریں گے۔ ان کے دورے کا مقصد غزہ میں امداد کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کو ممکن بنانا اور اسرائیل کی عسکری کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے پر زور دینا ہوگا۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کو رواں ہفتے تین ماہ مکمل ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ اینٹنی بلنکن ممکنہ طور پر جمعرات کو مشرقِ وسطیٰ کے دورے کا آغاز کریں گے۔
اس دورے کے دوران وہ اسرائیل بھی جائیں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک سینئر مشیر اموس ہوکسٹائن بھی اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ ان کے دورے کا مقصد اسرائیل اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
ترکیہ کے مقامی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ ترک وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ ہفتے کو ترکیہ کے حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
امریکی حکام ایسے وقت میں مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہوں گے جب خطے میں ایک بڑے تنازع کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
دوسری جانب مغربی ممالک اور خطے کی ریاستیں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو غزہ کی پٹی تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک ڈرون حملے میں حماس کے سینئر رہنما کی ہلاکت کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو اس تنازع کے دوسرے محاذوں تک پھیلنے پر شدید خدشات ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کی جانب سے حملوں کے حوالے پوری طرح مستعد ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بیروت میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے حماس کے سینئر رہنما صالح العاروری کے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ سے دیرینہ تعلقات تھے۔
صالح العاروری کی موت کے بعد حسن نصر اللہ ٹی وی پر ایک خطاب میں کہا ہے کہ اس حملے کا جواب دیا جائے اور اس کے ذمے داروں کو سزا دی جائے گی۔
البتہ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ نہیں کہا کہ ان کی فورس حزب اللہ اسرائیل کے خلاف حملوں میں تیزی لائے گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ نے حزب اللہ اور خطے کی دیگر طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد یہ وقت نہیں ہے کہ کشیدگی میں اضافے کے بارے میں سوچا بھی جائے۔
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمینی، فضائی اور بحری راستوں سے ایک ساتھ حملہ کیا تھا۔ اس غیر متوقع حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے 240 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا جن میں سے 100 سے زائد افراد کو نومبر کے آخر میں عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔ حماس کے مطابق بعض یرغمال افراد اسرائیلی بمباری میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اب بھی 129 افراد حماس کی تحویل میں ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں 22 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں اکثریت بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی ہے۔
غزہ کی ساحلی پٹی میں 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو اس گنجان آباد علاقے کی 85 فی صد آبادی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ میں لگ بھگ 23 لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔
سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ کو تین ماہ ہونے والے ہیں لیکن اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی کارروائی مسلسل جاری ہے جب کہ حماس بھی اسرائیلی فوج پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
یرغمال افراد کی بازیابی کے لیے مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے۔ البتہ بیروت میں حماس کے رہنما کی موت کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی اولین ترجیح تمام یرغمال افراد کی بازیابی ہے۔ البتہ اس حوالے سے جاری کوششوں پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب حماس کے پولیٹیکل بیورو نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یرغمال افراد کی رہائی حماس کی طے کردہ شراط پر ہوگی۔
(اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے شامل کی گئی ہیں۔)