بھارت کی شوبز انڈسٹری بالی وڈ میں ہیش ٹیگ 'می ٹو' کی مہم شروع ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس تحریک میں شامل کئی خواتین نے کہا ہے کہ مردوں سے متعلق جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے لانے کے بعد انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ہالی ووڈ سے شروع ہونے والی 'می ٹو' کی تحریک امریکہ میں خاصی کامیاب رہی۔ لیکن بھارت کی شوبز انڈسٹری میں یہ ان خواتین کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن گئی جنہوں نے اس مہم کے زیرِ اثر اپنے ساتھ بیتے واقعات دنیا کے سامنے بیان کیے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ اب انڈسٹری کے لوگ انہیں کام دینے سے جھجھکتے ہیں۔
بالی وڈ میں 'می ٹو' تحریک کا حصہ بننے والی خواتین کے بقول انہوں نے جن مردوں پر الزام لگائے، ان کا کیریئر تو اب بھی برقرار ہے۔ البتہ ان خواتین کو کام نہیں مل رہا جنہوں نے اپنے ساتھ گزرے جنسی ہراسانی کے واقعات بیان کیے۔
'اے ایف پی' کے مطابق بھارت کی ایک گلوکارہ سونا موہا پترا نے جب کمپوزر انّو ملک پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تو انہیں کہا گیا کہ وہ ٹی وی شو "سا رے گا ما پا" سے الگ ہو جائیں جہاں وہ جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
سونا موہا پترا نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انّو ملک سے متعلق اپنا تجربہ لوگوں تک پہنچانے پر انہیں مشکلات کھڑی کرنے والی قرار دیا گیا اور راتوں رات ٹی وی شو سے الگ ہونے کا کہا گیا۔
البتہ شو کی انتظامیہ نے موہا پترا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے شو چھوڑنے کا تعلق 'می ٹو' تحریک سے نہیں ہے۔
بالی وڈ فلموں کے ایک ہدایت کار وکاس باہل پر بھی جنسی ہراسانی کے الزامات لگے جس کے بعد ابتدائی طور پر ان کا نام 'سپر 30' نامی فلم کے کریڈٹس سے نکال دیا گیا تھا۔
لیکن الزامات کا جائزہ لینے والی ایک کمیٹی نے انہیں بے گناہ قرار دے دیا تھا جس کے بعد وہ دوبارہ انڈسٹری میں قدم جما چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کمیٹی نے الزام عائد کرنے والی متاثرہ خاتون کو مؤقف پیش کرنے کے لیے طلب ہی نہیں کیا۔
بالی وڈ کے ایک اور فلم ساز سبھاش کپور پر بھی ایسے ہی الزامات لگے۔ ان الزامات کے بعد انہیں عامر خان کی پروڈکشن میں بننے والی ایک فلم سے بھی نکال دیا گیا تھا۔
لیکن وہ یہ کہہ کر دوبارہ فلم انڈسٹری میں واپس آ گئے کہ صرف عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انہیں بے گناہ یا قصور وار قرار دے۔ ان کا مقدمہ عدالت میں ہے جس کا فیصلہ آنے میں کئی برس بھی لگ سکتے ہیں۔
بالی وڈ کے معروف اداکار الوک ناتھ کے خلاف بھی زیادتی کے الزام میں تحقیقات چل رہی ہیں اور انہوں نے الزام لگانے والی خاتون پر ہتکِ عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا ہوا ہے۔
لیکن اس کے باوجود الوک ناتھ کی ایک فلم ریلیز ہونے والی ہے جس کا نام "میں بھی" (می ٹو) رکھا گیا ہے۔ اس فلم میں وہ ایک جج کا کردار ادا کر رہے ہیں جو جنسی ہراسانی کے مقدمات نمٹاتا ہے۔
دوسری جانب بالی وڈ کی ایک گلوکارہ شویتا پنڈت نے کہا ہے کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ جس مرد پر جنسی ہراسانی کا الزام لگے، اگر وہ ایک سال کے لیے منظرِ عام سے غائب ہو جائے تو لوگ سب بھول جاتے ہیں۔
شویتا پنڈت نے بھی گلوکار اور کمپوزر انو ملک پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 'می ٹو' کے تحت اپنے ساتھ بیتا واقعہ شیئر کرنے کے بعد انہیں آن لائن تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ اگر ہم اسے کام دیں گے تو یہ ہمارے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہے گی۔ لہٰذا اس سے محتاط رہا جائے۔
انوشہ خان ایک کنسلٹنٹ ہیں جو جنسی ہراسانی سے متعلق ورک شاپس کراتی ہیں۔ انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ بالی وڈ انڈسٹری ابھی یہی سمجھنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے کہ جنسی ہراسانی کا کوئی مسئلہ وجود بھی رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں جنسی ہراسانی کے ملزمان کو بچانے کا سسٹم بہت مضبوط ہے۔ اسی لیے بہت سارے ایسے مرد جن پر الزامات لگے، وہ دوبارہ اپنا کیریئر شروع کر چکے ہیں۔
بالی وڈ کی معروف اداکارہ تنوشری دتّہ نے ایک مشہور اداکار نانا پاٹیکر پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ایک گانے کی عکس بندی کے دوران انہیں نا مناسب طریقے سے چھوا تھا۔
سابق مِس انڈیا کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھ گزرا واقعہ بیان کرنے کے بعد ان کا کیریئر تقریباً ختم ہو چکا ہے جب کہ پولیس ان کی شکایت بھی درج نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ نانا پاٹیکر پر الزام عائد کرنے کے بعد سے ان کے دوست اور کام، سب کچھ چھوٹ گیا ہے اور انہیں کافی عرصے تک ڈپریشن میں رہنا پڑا۔
تنوشری دتہ نے کہا، "میں اب اس تحریک سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ کیوں کہ میرا کام تو ختم ہو چکا ہے تو میرے پاس اب کھونے کو بچا ہی کیا ہے؟"