رسائی کے لنکس

سچائی پر مبنی تحریر دستاویز کا روپ دھار لیتی ہے: ستیا پال آنند


کتاب بینی کے شوق کے فقدان کےبارے میں فیروزہ صلاح الدین نے کہا کہ: ’’ہمارا اُس معاشرے سے تعلق ہے جہاں جوتے ایئرکنڈیشن دکانوں پر جب کہ کتابیں فٹ پاتھوں پر بکتی ہیں‘‘

امریکہ ایک ایسا سنگم ہے جہاں کثیر جہتی معاشروں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی ثقافتوں اور دلچسپیوں کے ساتھ اپنی انفرادیت کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ اُن میں بڑی تعداد میں پاکستان سمیت دیگر جنوب ایشیائی لوگ شامل ہیں۔ وہ مختلف ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں، جہاں فن و ادب اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مجلس اختتامِ ہفتہ ورجینیا میں منعقد ہوئی جس میں معروف صحافی اور لکھاری، نضیرہ اعظم کی کتاب ’اناہیتا کی جنم بستی‘ کی تقریب پزیرائی منعقد ہوئی، جس میں علاقے کے جانے پہچانے دانشوروں اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر مشہور شاعر اور دانشور پروفیسر ستیاپال آنند نے اپنی صدارتی تقریر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ک نضیرہ نے ’’زندگی کے اُس دورانیے کو قلم بند کیا ہے جو ابھی اختتام پذیر نہیں ہوا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’وقت گزرنے کے ساتھ، سچائی سے گُندھی تحریر تاریخی دستاویز بن جاتی ہے‘‘۔

تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہوئے، پروفیسر آنند نے کہا کہ ناول کا مرکزی خیال ’اناہیتا‘ کے گِرد گھومتا ہے، جس کردار کے پاس پاکستان کے بدلتے ہوئے دھارے کے بارے میں ’’اپنا ایک نقطہٴ نظر ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اناہیتا بھٹکتی نہیں ہے، بس وہ واقعات پیش کرتی جاتی ہے‘‘۔ پروفیسر آنند نے ناول کو ایک ’’سنجیدہ کاوش‘‘ قرار دیا۔

اناہیتا نام کا تجزیہ کرتے ہوئے، اُنھوں نےبتایا کہ ’اناہیتا‘ دیوی کا صفاتی نام ہے، جو خود غرضی کی نفی ہے، کیونکہ، ’’دیویاں اپنے لیے کچھ نہیں کرتیں، بس دوسروں کا خیال اُن کے ذمے ہوتا ہے‘‘۔

پروفیسر آنند نے کہا کہ ’’چونکہ اناہیتا ایک عورت ہے، وہ آس پاس کی زندگی کو دیکھتی اور پرکھتی ضرور ہے، لیکن خود سیاست کا حصہ نہیں‘‘۔اُنھوں نے عقل اور دل کی کشمکش کا ذکر کیا،’’جس میں کبھی ایک تو کبھی دوسرا غالب آتا دکھائی دیتا ہے؛ اور کبھی تو منظر نامے پر محض رومان کی دھند سی چھائی ہوتی ہے‘‘۔

دوسری جانب، اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک اخبار نویس، جس دِن کا تجربہ ہوتا ہے اُسے اُسی دِن لکھ لیتا ہے، جسے عجلت میں کیا گیا کام نہیں کہا جاتا‘‘۔ حوالے کے طور پر، اُنھوں نے بلوچستان سےتعلق رکھنے والے تخلیق کار، گل آغا اور سندھ کی ناول نگار شہناز شورو کا ذکر کیا، اور کہا کہ ’’اُن ناولوں کا بیک گراؤنڈ بھی پاکستان ہے، جب کہ کہانی ایک سی ہے‘‘۔

اس سے قبل، ڈاکٹر معظم صدیقی نے کہا کہ ناول اس دور کا عکاس ہے جب نضیرہ کے خیالات میں پختگی آ چکی تھی۔ اُنھوں نے نضیرہ کی تحریر میں ’’پختہ خیالی اور دلیری کے عنصر‘‘ کو خصوصی طور پر سراہا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ناول اتنا ضخیم نہیں۔ لیکن، دلچسپی سے خالی نہیں‘‘۔

ابوالحسن نغمی نے پاکستانی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک وقت تھا جب اخبار نویسی کو مردانہ کام قرار دیا جاتا تھا‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ تین دہائیوں میں اتنا انقلاب آیا ہےکہ ملک میں خواتین صحافیوں کی کافی تعداد موجود ہے۔ نضیرہ کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’وہ لکھ رہی ہے اور خوب لکھ رہی ہے‘‘ اور ’’کُڑی نو لکھن دو‘‘۔

عبیدالرحمٰن صدیقی نے کہا کہ ’’ناول نویس کا اناہیتا سے گہرا تعلق ہے، جب کہ وہ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں‘‘۔

کتاب بینی کے شوق کے فقدان کےبارے میں، فیروزہ صلاح الدین نے کہا کہ ’’ہمارا اُس معاشرے سے تعلق ہے جہاں جوتے ایئرکنڈیشن دکانوں پر جب کہ کتابیں فٹ پاتھوں پر بکتی ہیں‘‘۔

زلیخا یوسف نے احمد ندیم قاسمی کی یہ نظم پڑھی:

’’زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں

دیکھنا حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے

سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے‘‘۔

ناول کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایک مشاہداتی افسانہ ہے‘‘، جسے کراچی یونیورسٹی کے شعبہٴ صحافت کے شفیق استاد، ذکریا ساجد سے منسوب کیا گیا ہے۔

یوسف راحت نے کہا کہ ناول نگار نے اپنے عہد کے ’’پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اختصار اور خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے‘‘۔

نجم الاعظم نے کہا کہ ’’روایتی طور پر، پاکستانی تاریخ میں محض بڑے لوگوں کے قصے ملتے ہیں، عام آدمی کہیں دکھائی نہیں دیتا؛ جب کہ اس ناول کا معاملہ دیگر ہے‘‘۔

کتاب کی تقریب پزیرائی ’کراچی یونیورسٹی المنائی ایسو سی ایشن‘، ’علیگڑہ المنائی ایسو سی ایشن‘، ’سوسائٹی فور اردو لٹریچر‘، ’حلقہٴ اربابِ ذوق‘ اور ’اردو اکیڈمی آف میری لینڈ‘ کے توسط سے منعقد ہوئی۔ نظامت کے فرائض نامور شاعر و ادیب ڈاکٹر اے عبداللہ کے ذمے تھا، جنھوں نے ادبی نوک جھونک سے محفل کو گرمائے رکھا؛ جب کہ اختتامی کلمات ظفر اقبال نے ادا کیے۔

اپنے کلمات میں، مصنفہ نے بتایا کہ ناول کے نام کے چناؤ میں ڈاکٹر معظم صدیقی نے رہنمائی فرمائی۔ نضیرہ نے ہری پور میں حصول ِتعلیم، کراچی میں صحافت کی تعلیم، اور پھر کوئٹہ اور اسلام آباد میں عملی صحافت اختیار کرنے کا تفصیلی تذکرہ کیا۔

نضیرہ نے کہا کہ ناول کی بنیاد وہ ڈائریاں ہیں جن میں واقعات اور اُن کی یادداشتیں درج تھیں، جو وہ شعبہٴ صحافت اور پھر صحافت سے وابستگی کے دوران ضبط ِتحریر میں لاتی رہیں۔ اُن کی زبانی، ’’اِن میں، ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ، پاکستان کا دولخت ہونا، فوجی آمریت کا صحافیوں اور سیاستدانوں پر جبر، تحریر و تقریر کی پابندی، بھٹو کی پھانسی، معاشرے کی بدلتی ہوئی شکل، جنوب ایشیائی تہذیب میں بگاڑ کا سفر، مذہب کے نام پر غیر ملکی آقاؤں کی تابعدار جماعتوں کا ہجوم، چادر اور چار دیواری کے زنداں میں عورتوں کی قید اور ان سب کے منفی اثرات جس سے ہماری پوری پود گزری، بلکہ اس کے بعد والی نسلیں بھی گزر رہی ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG