رسائی کے لنکس

ترک ڈراموں کے باعث سیاحت میں اضافہ؛ 'یہ میرے لیے ایک خواب کی طرح تھا'


  • 'عشق ممنوع' سن 2008 سے 2010 تک ترکیہ میں آن ایئر ہوا تھا جسے خوب مقبولیت ملی تھی۔ بعدازاں اس ڈرامے کو پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک نے مقامی زبان میں ڈب کر کے ریلیز کیا تھا۔
  • ترکش ڈراموں کی مقبولیت سے نہ صرف ملک کی عالمی امیج کو تقویت ملی ہے بلکہ دنیا بھر سے لاکھوں ناظرین تاریخی، ثقافتی اور دیگر مقامات کو دیکھنے آنے کے خواہش مند ہیں جو انہوں نے ترکش شوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔
  • ریسرچ کمپنی 'پیرٹ اینالیٹکس' کے مطابق سال 2020 سے 2023 کے دوران ترکش ڈراموں کی عالمی سطح پر مقبولیت میں 184 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ دنیا میں ٹی وی شوز کے سب سے بڑے ایکسپوٹرز میں سے ایک بن گیا ہے۔
  • مئی 2020 میں 'ارطغرل' دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شو میں چوتھے نمبر پر تھا: پیرٹ اینالیٹکس

"یہ میرے لیے یہ ایک خواب کی طرح تھا، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں ان تمام مقامات کو حقیقت میں دیکھ رہی ہوں جنہیں میں روز ڈرامہ میں دیکھا کرتی تھی۔"

یہ کہنا ہے ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والی 66 سالہ راکیل گریکو کا جو ترک ڈراموں سے متاثر ہو کر سیاحت کے لیے استنبول آئی تھیں۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے راکیل کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے استنبول میں وہ تمام مقامات حقیقت میں دیکھ لیے ہیں جو وہ ڈراموں میں دیکھا کرتی تھیں۔

پاکستان اور بھارت سمیت دیگر علاقائی ممالک میں تو ترک ڈراموں کی دھوم گزشتہ ایک دہائی سے ہے۔ لیکن ہزاروں میل دور جنوبی امریکہ کے ممالک میں اب یہ مقبول ہو رہے ہیں اور لوگ ڈراموں میں دکھائے جانے والے مقامات دیکھنے کے لیے ترکیہ کا رُخ کر رہے ہیں۔

لگ بھگ 12 برس قبل پاکستان میں جب ترک ڈرامہ سیریل 'عشقِ ممنوع' اور 'میرا سلطان' اردو زبان میں ڈب کر کے چلایا گیا تھا تو اسے خوب پسند کیا گیا تھا۔ یہ وہ پہلے ترکش ڈرامے تھے جنہیں پاکستان میں اس قدر مقبولیت ملی تھی۔

'عشق ممنوع' سن 2008 سے 2010 تک ترکیہ میں آن ایئر ہوا تھا جسے خوب مقبولیت ملی تھی۔ بعد ازاں اس ڈرامے کو پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک نے مقامی زبان میں ڈب کر کے ریلیز کیا تھا۔

ڈرامے کی مقبولیت کے بعد پاکستان میں ترکش ڈراموں کی مانگ میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آج تک ترکش ڈرامے ڈب کر کے اردو زبان میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

لیڈنگ ایکسپورٹ انڈسٹری

نہ صرف پاکستان، ترکش ڈرامے دنیا بھر میں پسند میں کیے جا رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق عالمی سطح پر ترکش ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ سے ترکیہ کی ٹیلی ویژن انڈسٹری لیڈنگ ایکسپوٹر کے طور پر سامنے آئی ہے۔

ترکش ڈراموں کی مقبولیت سے نہ صرف ملک کی عالمی امیج کو تقویت ملی ہے بلکہ دنیا بھر سے لاکھوں ناظرین تاریخی، ثقافتی اور دیگر مقامات کو دیکھنے آنے کے خواہش مند ہیں جو انہوں نے ترکش شوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔

ریسرچ کمپنی 'پیرٹ اینالیٹکس' کے مطابق سال 2020 سے 2023 کے دوران ترکش ڈراموں کی عالمی سطح پر مقبولیت میں 184 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ دنیا میں ٹی وی شوز کے سب سے بڑے ایکسپوٹرز میں سے ایک بن گیا ہے۔

'روزانہ 40 کروڑ ناظرین تک پہنچتے ہیں'

ترکیہ کے ڈرامے دنیا بھر میں تقسیم کرنے والی کمپنی 'گلوبل ایجنسی' کے سی ای او عزت پنتو کے مطابق "ہم دنیا بھر میں روزانہ 40 کروڑ سے زائد ناظرین تک پہنچتے ہیں۔"

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق 'ڈیلی یورک' وہ پہلا ترکش ڈرامہ تھا جسے 2001 میں قازقستان کو برآمد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2005 میں ریلیز ہونے والے ترکش ڈرامے 'گمش' نے ترک ڈراموں کو عالمی شہرت تک پہنچایا تھا۔

سال 2018 میں وینزویلا کے صدر نکولس مدورو نے ترکیہ کے معروف ڈرامہ 'ارطغرل' کے سیٹ کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے ملک میں ترکش ڈراموں کی ضرورت کو اجاگر کیا تھا۔

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اطغرل غازی کو ترکیش براڈکاسٹر ٹی آر ٹی کی شراکت کے ساتھ پاکستان میں بھی اردو زبان میں ڈب کر کے ریلیز کیا گیا تھا۔ اس کی پہلی قسط کو 15 کروڑ 70 لاکھ بار دیکھا گیا تھا۔

ریسرچ کمپنی 'پیرٹ اینالیٹکس' کے مطابق مئی 2020 میں 'ارطغرل' دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شو میں چوتھے نمبر پر تھا۔

ترکش ڈراموں کا پلیٹ فارم 'ڈیزیلا' کی بانی ہالے یوگانادی کا کہنا ہے کہ "ترکش ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ ڈراموں کی تھیم ہے جو فیملی، محبت اور دوستی پر مبنی ہوتی ہے۔"

ان کے بقول پلیٹ فارم پر ماہانہ لگ بھگ 15 لاکھ ناظرین آتے ہیں جن میں امریکہ، کینیڈا، یونان، بھارت اور پاکستان بھی شامل ہے۔

استنبول کے باہجیشہر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈینز گرگین نے ترکش میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سال 2023 میں ترکیہ کی ڈرامہ انڈسٹری نے ایکسپورٹ سے لگ بھگ ایک ارب ڈالرز کمائے جس کا سیاحت پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG