اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی ٹربیونل برائے جرائم نے بوسنیا کے سابق سرب رہنما رادووان کراڈزک کو مسلمانوں کے قتلِ عام کا جرم ثابت ہونے پر 40 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
جمعرات کو اپنے فیصلے میں سابق یوگوسلاویہ میں1990ء کی دہائی میں پیش آنے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے قائم بین الاقوامی ٹربیونل نے کراڈزک کو 1992ء سے 1995ء کے دوران بوسنیا کے مسلمانوں پر سربوں کے مظالم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ان تین برسوں کے دوران بوسنیا میں سرب فوج اور اس کی اتحادی قوم پرست ملیشیاؤں کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کراڈزک 1995ء میں بوسنیا کے علاقے سربرینِیسا میں ہونے والے قتلِ عام کے بھی ذمہ دار تھے جس کے دوران سرب فورسز نے آٹھ ہزار سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کردیا تھا۔
ٹربیونل کے سربراہ او گون کوان نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ کراڈزک کی مدد کے بغیر سربرینیِسا کا سانحہ ممکن ہی نہیں تھا۔
تاہم دی ہیگ میں قائم ٹربیونل نے 70 سالہ کراڈزک کو بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشین باشندوں کو ان کے دیہات سے بے دخل کرنے کے بعد ان کا قتلِ عام کرنے کے الزام سے بری کردیا ہے۔
رودووان کراڈزک بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیا میں آباد سربوں کے رہنما اور بوسنیا کی سرب فوج کے سب سے سینئر افسر تھے۔
بوسنیا کی سرب فوج کے سربراہ اور سابق جنرل راٹکو ملاڈِک بھی دی ہیگ کی عدالت میں قتلِ عام اور مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔
سنہ 2014ء میں ٹربیونل کے سامنے اپنا اختتامی بیان دیتے ہوئے کراڈزک نے کہا تھا کہ وہ دورانِ جنگ کیے جانے والے اپنے تمام اقدامات کی صرف "اخلاقی ذمہ داری" قبول کرتے ہیں۔
کراڈزک نے کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے وکلا کے پاس ایسے شواہد موجود نہیں جن کے نتیجے میں ان کا تعلق بوسنیا کی جنگ میں روا رکھے جانے والے مظالم سے ثابت ہوسکے۔
انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اقوامِ متحدہ نے ان کے خلاف کارروائی کرکے پوری سرب قوم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔
اپنے 874 صفحات پر مشتمل بیانِ صفائی میں کراڈزک نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ سربرینیِسا میں ہونے والے قتلِ عام سے بے خبر تھے اور انہیں بہت بعد میں اس کی اطلاع ملی تھی۔