اپریل 2013ء میں بوسٹن کے ہلاکت خیز حملے کے سلسلے میں کی جانے والی تفتیش کے دوران حکام سے غلط بیانی کرنے پر، بوسٹن مراتھون بم حملے کے ملزم زوخار سارنیف کے ایک دوست کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔
ایک امریکی جیوری نے منگل کے روز بتایا کہ 21 برس کے روبل فلپوس کو دو دفعات کے تحت قصوروار ٹھہرایا گیا ہے، جن کا تعلق اہل کاروں کے روبرو غلط بیانی سے کام لینے سے ہے۔ 29 جنوری کو اُن کے خلاف باضابطہ فیصلہ سنایا جائے گا۔ اس جرم کی پاداش میں اُنھیں 16 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایف بی آئی ایجنٹوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ فلپوس کا یہ بیان کہ وہ بم حملوں کے بعد تین روز تک سارنیف کے کمرے میں داخل نہیں ہوا، ایسے میں جب اُن کے تین دوستوں نے وہاں سے سامان کا ایک تھیلا اٹھایا جِس میں آتشیں مواد اور دیگر ممکنہ شہادتیں موجود ہو سکتی ہیں۔ بعدازاں، اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ کمرے میں گئے تھے۔
اُن کے وکلاٴ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ بھنگ کے نشے میں چور ہونے کی بنا پر اُنھیں اپنے متعلق واضح طور پر کوئی بات یاد نہیں رہی۔
سارنیف کے خلاف جنوری میں مقدمے کی باضابطہ سماعت شروع ہوگی۔
اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے بڑے بھائی، تمرلان کے ساتھ مل کر یہ بم حملے کیے، جو پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔
چھوٹے سارنیف اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات پر اقبال جرم سے انکاری ہیں، تاہم، قصوروار قرار دیے جانے کی صورت میں، اُنھیں موت کی سزا ہوسکتی ہے۔ اِس حملے میں، تین افراد ہلاک جب کہ 250 زخمی ہوئے تھے۔
دو دوست جنھوں نے سارنیف کے سامان کا تھیلا کمرے سے ہٹایا تھا، اُن کے خلاف سازش اور انصاف میں روڑے اٹکانے کا الزام عائد ہے۔ جولائی میں، عظمت تزیاکوف کو سزا سنائی گئی تھی، جب کہ دئس قادربائیف نے اگست میں اقبال جرم کر لیا تھا۔
وکلائے استغاثہ نے ایک ٹیکسی ڈرائیور پر بھی تفتیش میں مداخلت کے ساتھ ساتھ سارنیف سے جان پہچان کے ثبوت مٹانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد ہے۔ اُنھوں نے بھی الزمات کی صحت سے انکار کیا ہے۔ اُن کے خلاف مقدمے کی سماعت بھی اگلے سال شروع ہوگی۔