پیر کو دارالحکومت سرینگر میں اُس وقت سینکڑوں لوگوں نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کئے جب شہر کے مائیسمہ علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے مبینہ طور پر ایک خاتون کی چوٹی کاٹ ڈالی۔ مظاہرین جب نعرے لگاتے ہوئے سرینگر کے مرکزی مقام لال چوک کی طرف بڑھنے لگے تو پولیس اور نیم فوجی دستے اُن کے راستے میں آگئے اور پھر ان پر اشک آور گیس چھوڑی اور بانس کے ڈنڈے چلائے۔ مظاہرین میں شامل نوجوانوں نے مشتعل ہوکر حفاظتی دستوں پر سنگ باری شروع کردی-
اس سے پہلے سرینگر کے ایک کالج کے طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور پھر سڑکوں پر آکر پولیس سے جھڑپیں کیں۔
چوٹی کاٹ ڈالنے کا ایک اور مبینہ واقعہ شمال مغربی ضلع بارہ مولہ کے شیری علاقے میں پیش آیا۔ ایک دوشیزہ کی والدہ نے پولیس کو بتایا کہ اُس پر مکان کے صحن میں حملہ کیا گیا۔ دوشیزہ کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے مظاہرے کئے جبکہ وکلاء نے بارہ مولہ کی ایک عدالت کے احاطے سے جلوس نکالا اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر جاکر اپنا احتجاج درج کرایا۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ چار ہفتے کے دوران خواتین اور لڑکیوں کی چوٹیاں کاٹنے کے ایک سو سے زائد واقعات پیش آئے ہیں جس کی وجہ سے ان میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ہدف بنائی گئی کئی خواتین کا کہنا ہے کہ حملہ آورں نے ان پر کوئی کیمیائی شئے چھڑکی جس سے وہ بے ہوش ہوگئیں اور جب انہیں ہوش آیا تو ان کی چوٹیاں کاٹی جاچکی تھیں۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس مُنیر احمد خان نے سرینگر میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ شکار بنائی گئی خواتین اور لڑکیوں پر جو شے اسپرے کی گئی پولیس اس کے نمونے حاصل کر کے ان کی سائنسی تحقیقات کروا کر معاملے کی تہہ تک جانے کو کوشش کرے گی۔ انہوں نے اس امر کی تردید کی کہ پولیس نشانہ بنائی گئی خواتین یا لڑکیوں کو جھوٹ کا پتہ لگانے والے آلات یا پولیگراف ٹیسٹنگ جیسے مراحل سے گزارنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاہم انہوں نے شکایت کی کہ لوگ اس معاملے میں پولیس کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کررہے ہیں۔
پولیس نے چوٹیاں کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور چوبیس گھنٹے فعال رہنے والی ہیلپ لائنیں بنائی ہیں۔ اس کے علاوہ اس طرح کے کسی واقعے میں ملوث شخص کو پکڑنے میں مدد دینے والے کے لئے چھہ لاکھ روپے کا انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن تا حال عہدیدار اس سارے معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور نہ پولیس کوئی با ضابطہ گرفتاری عمل میں لاسکی ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس منیر خان نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کردی کہ ان واقعات میں خود پولیس یا بھارتی حفاظتی دستے یا سراغ رسان ایجنسیاں ملوث ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ چوٹیاں کاٹنے کی حرکتوں کا مقصد بڑے پیمانے پر ہسٹیریا پیدا کرنا اور خواتین کے وقار کو کمزور کرنا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کی حکومت واقعات کی تحقیقات اور ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں برتے گی۔
چوٹیاں کاٹنے کے بعض واقعات کے بعد یا ان کے پیش آنے کی افواہوں کے بیچ مشتعل ہجوموں نے کئی بے قصور افراد کی پٹائی کردی۔ اس طرح کے ایک واقعے میں ادھیڑ عمر کا ایک شخص اپنی جان گنوا بیٹھا۔ چند ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جب بعض افراد نے ذاتی و جوہات کی بنا پر دوسروں کو ہجوموں سے پٹوایا۔ پولیس عہدیدار کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کئی کیس رجسٹر کرکے گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔