رسائی کے لنکس

آرمی پبلک اسکول کے زخمی استاد ہمت و استقامت کی تصویر


الطاف حسین
الطاف حسین

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014ء میں ہونے والا دہشت گرد حملہ ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ تصور کیا جاتا ہے جس میں 120 سے زائد طلبا سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

43 سالہ الطاف حسین بھی اس واقعے سے متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں جو اس اسکول کے تدریسی شعبے سے وابستہ ہیں اور حملے کے روز اپنی سات سالہ بیٹی خولہ کو اسی اسکول میں داخل کروانے کے لیے لائے تھے۔

دہشت گردوں کی فائرنگ سے خولہ تو زندگی کی بازی ہار گئی لیکن الطاف حسین شدید زخمی ہوئے اور کئی ماہ کے صبر آزما علاج کے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے دوبارہ سے تدریسی سرگرمیاں تو شروع کر دی ہیں لیکن ان کی صحت مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی اور ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ وہ مزید علاج کے لیے بیرون ملک جائیں۔

"پچھلے سال کی نسبت اس سال تکلیف زیادہ ہے مگر میں اب عادی ہو گیا ہوں برداشت بھی کرتا ہوں مگر کوئی دوسرا راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔اچھے دوست اور ساتھی ہیں میرے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اگر میں کھڑا ہو کر کام کرتا ہوں تو مجھے تکلیف نہیں ہوتی مگر انسان ہوں تھکاوٹ ہوتی ہے تھک جاتا ہوں۔۔۔چلنے پھرنے سے کوئی تکلیف نہیں سیڑھیاں چڑھنے سے تکلیف ہوتی ہے کرسی پر بیٹھنا عذاب ہوتا، بہرحال وقت گزر رہا ہے زندگی گزر رہی ہے۔"

الطاف حسین کے سینے میں گولیاں لگی تھیں جس سے ان کے پھیپھڑے اور پسلیاں متاثر ہوئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ نہ صرف ذہنی اور جسمانی طور پر ان کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوا بلکہ ان کی معاشی صورتحال کو بھی بری طرح مثاتر کرنے کا سبب بنا ہے۔

اس حملے کا شکار ہونے سے قبل وہ آرمی پبلک اسکول کے علاوہ دیگر کئی نجی تعلیمی اداروں سے بھی وابستہ تھے۔

"میری آمدنی معقول تھی مگر اس سانحے کے بعد اب میں دیگر اداروں میں کام نہیں کر سکتا۔ ذرائع آمدن محدود ہو گئے ہیں کوشش ہے کہ سیکنڈ ٹائم میں کوئی نوکری مل جائے کیونکہ مکان کا کرایہ ہے تین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔"

ان تمام تر مسائل اور پریشانیوں کے باوجود الطاف حسین پرعزم ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم کو مزید فروغ دینا ہوگا۔

"لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو واضح رکھیں دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی طور پر مذہب یا عقیدے سے نہیں، ان کا کوئی مذہب نہیں ان کا کام صرف قتل کرنا ہے۔۔۔دہشت گرد تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ تعلیم عام اور معیاری ہو۔"

الطاف حسین نے کہا کہ تعلیم کے ذریعے کے مستقبل کو روشن کیا جا سکتا ہے اور اس میں ہر کسی کو اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG